لطیفہ قلب
گوشت کے لوتھڑے کو اُردو میں دِل اور عربی میں فواد بولتے ہیں اور اس مخلوق کو جو دِل کے ساتھ ہے، قلب بولتے ہیں۔اس کی نبوت اور علم آدمؑ کو ملا تھا۔ حدیث میں ہے کہ دِل اور قلب میں فرق ہے۔ اس دنیا کو ناسوت بولتے ہیں۔اس کے علاوہ اورجہان بھی ہیں، یعنی ملکوت، عنکبوت، جبروت، لاہوت، وحدت اور احدیت۔ یہ مقام ناسوت میں گولہ پھٹنے سے پہلے تھے اور ان کی مخلوقیں بھی پہلے سے موجود تھیں۔فرشتے ارواح کے ساتھ بنے۔ لیکن ملائکہ اور لطائف پہلے ہی سے ان مقامات پر موجود تھے بعد میں عالم ِ ناسوت میں بھی کئی سیاروں پر دنیا آباد ہوئی۔کوئی مٹ گئے اور کوئی منتظر ہیں۔ یہ مخلوق یعنی لطائف اور ملائکہ روحوں کے امر کن سے ۷۰ ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے اور ان میں سے قلب کو مقام ِ محبت میں رکھا گیا اور اسی کے ذریعے انسان کا رابطہ اللہ سے جڑ جاتا ہے۔اللہ اور بندے کے درمیان یہ ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان پر دلیل و الہامات اسی کے ذریعے وارد ہوتے ہیں۔جبکہ لطائف کی عبادات بھی اسی کے ذریعے عرش ِ بالا پر پہنچتی ہیں لیکن یہ مخلوق خود ملکوت سے آگے نہیں جاسکتی، اس کا مقام خلد ہے۔ اس کی عبادت بھی اندر اور تسبیح بھی انسان کے ڈھانچے میں ہے۔ اس کی عبادت کے بغیر والے جنتی بھی افسوس کرینگے کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ’’ کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کو نیکوکاروں کے برابر کردینگے؟‘‘ کیونکہ قلب والے جنت میں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے۔ جسمانی عبادت مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے جن کے قلب اور لطائف اللہ کے نور سے طاقتور نہیں وہ قبروں میں ہی خستہ حالت میں رہیں گے یا ضائع ہوجائینگے جبکہ منور اور طاقتور لطائف مقام علیین میں چلے جائینگے۔ یوم محشر کے بعد جب دوسرے جسم دیئے جائینگے تو پھر یہ لطائف بھی روح انسانی کے ساتھ دیدار والے لافانی ولیوں کے جسم میں داخل ہونگے۔جنہوں نے ان کو دنیا میں اللہ اللہ سکھایا تھا وہاں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے اور وہاں جاکر بھی ان کے مرتبے بڑھتے رہیں گے۔ اور جو ادھر دِل کے اندھے تھے وہ اُدھر بھی اندھے ہی رہیں گے۔ کیونکہ میدان عمل یہ دنیا تھی اور وہ ایک ہی جگہ ساکن ہوجائینگے۔عیسائیوں، یہودیوں کے علاوہ ہندو مذہب بھی ان مخلوقوں کا قائل ہے۔ ہندو اِنہیں شکتیاں اور مسلمان انہیں لطائف کہتے ہیں۔ قلب دل کے بائیں طرف دو انچ کے فاصلے پر ہوتا ہے اس مخلوق کا رنگ زرد ہے۔ اس کی بیداری سے انسان زرد روشنی اپنی آنکھوں میں محسوس کرتا ہے۔بلکہ کئی عامل حضرات ان لطائف کے رنگوں سے لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔اکثر لوگ اپنے دِل کی بات برحق مانتے ہیں۔اگر واقعی دِل سچے ہیں تو سب دِل والے ایک کیوں نہیں؟ عام آدمی کا قلب صنوبری ہوتا ہے جس میں کوئی سُدھ بُدھ نہیں ہوتی، نفس اور خناس کے غلبے یا اپنے سیدھے پن کی وجہ سے غلط فیصلہ بھی دے سکتا ہے۔قلب صنوبری پر اعتماد نادانی ہے۔جب اس دِل میں اللہ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے پھر اس میں نیکی بدی کی تمیز اور سمجھ آجاتی ہے اِسے قلب سلیم کہتے ہیں، پھر ذکر کی کثرت سے اس کا رُخ رب کی طرف مُڑ جاتا ہے اِسے قلبِ منیب کہتے ہیں، یہ دِل برائی سے روک سکتا ہے مگر یہ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا، پھر جب اللہ تعالیٰ کی تجلیات اس دِل پر گرنا شروع ہوجاتی ہیں تو اُسے قلب شہید کہتے ہیں۔ حدیث : شکستہ دِل اور شکستہ قبر پر اللہ کی رحمت پڑتی ہے۔ اُس وقت جو دِل کہے چُپ کرکے مان لے کیونکہ تجلی سے نفس بھی مطمئنہ ہوجاتا ہے اور اللہ حبل الورید ہوجاتا ہے پھر اللہ کہتا ہے کہ میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔