گوہرشاہی کا عالمِ انسانیت کے لئے انقلابی پیغام
مسلم کہتا ہے کہ:’’ میں سب سے اعلیٰ ہوں‘‘، جبکہ یہودی کہتا ہے:’’ میرا مقام مسلم سے بھی اُونچا ہے‘‘، اور عیسائی کہتا ہے:’’ میں ان دونوں سے بلکہ سب مذاہب والوں سے بلند ہوں کیونکہ میں اللہ کے بیٹے کی امت ہوں۔‘‘لیکن گوہر شاہی کہتا ہے:’’سب سے بہتر اور بلند وہی ہے جس کے دِل میں اللہ کی محبت ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے نہ ہو!زبان سے ذکر و صلوۃ اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت ہے جبکہ قلبی ذکر، اللہ کی محبت اور رابطے کا وسیلہ ہے۔‘‘
بامرتبہ تصدیق نقالیہ زندیق، جھوٹی نبوت کا دعویدار کافر ہے۔ جبکہ جھوٹی ولائت کا دعویدار کفر کے قریب ہے۔ ولی دوست کو کہتے ہیں اور دوست کا ایک دوسرے کو دیکھنا اور ہمکلام ہونا ضروری ہے۔ حضور نے بھی ایک مرتبہ اصحابہ کو کہا تھا کہ کچھ کام صرف میرے کرنے کے ہیں،تمہارے لئے نہیں ہیں۔ ہر نمازی کی یہی دُعا ہوتی ہے کہ :’’اے اللہ مجھے اُن لوگوں کا سیدھا راستہ دیکھا جن پر تیرا انعام ہوا۔ جب تک اُس کی روح بَیتُ المعْمور میں جاکر نماز نہ پڑھے جسے حقیقی نماز کہتے ہیں کیونکہ وہ نماز مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ جیسا کہ شب معراج میں بیت المقدس میں بھی سب نبیوں کی ارواح نے نماز پڑھی تھی، اور جب تک رب کا دیدار نہ ہوجائے اُس وقت تک شریعت کی اتباع ضروری ہے۔ البتہ سُست اور گناہگار لوگوں کیلئے بھی اللہ نے کچھ نعم البدل بنایا ہوا ہے۔ اللہ کے نام کا قلبی ذکر بھی ظاہری عبادت اور گناہوں کا کفارہ کرتا رہتا ہے اور کبھی نہ کبھی اُسے اللہ کا محبّ اور روشن ضمیر بنادیتا ہے۔
’’جب تمہاری نمازیں قضا ہوجائیں تو اللہ کا ذکر کرلینا
اُٹھتے، بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹوں کے بل بھی‘‘ (القرآن)
ولیوں کا قرب، نسبت ، نظر اور دُعا بھی گناہگاروں کا نصیبہ چمکا اور دوزخ سے بچا لیتی ہے۔جیسا کہ حضور ؐنے اُمت کے گناہگاروں کی بخشش کیلئے حضرت اویس قرنی سے بھی دُعا کیلئے اصحابہ کو بھیجا تھا۔سخاوت، ریاضت اور شہادت سے بھی گناہوں کا کفارہ اور بخشش بھی ہوسکتی ہے۔عاجزی،توبہ تائب اور گُریہ زاری بھی رب کو پسند ہے۔ جس کی وجہ سے نصوح جیسا کفن چور اور مردہ عورتوں کی بے حرمتی کرنے والا بخشا گیا۔(القرآن)
ایک دن عیسیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ تیرا بہترین دوست کون ہے؟اُس نے کہا:کنجوس عابد۔ کہ وہ کیسے؟اُس کی کنجوسی اُس کی عبادت کو رائیگاں کردیتی ہے۔پھر پوچھا تیرا بڑا دشمن کون ہے؟ اُس نے کہا: گناہگار سخی۔کہ وہ کیسے؟اُس کی سخاوت اُس کے گناہوں کو جلا دیتی ہے۔خدا کے بندوں اور خدا کی مخلوق سے پیار کرنے اور خیال رکھنے والے، حق کا ساتھ اور انصاف والے لوگ بھی رب کی نظرِ کرم کے قابل ہو جاتے ہیں۔
علامہ اقبال تیسری چوتھی کے طالبِ علم اسکول سے واپس آئے تو ایک کُتیا انُ کے پیچھے چل پڑی، آپ سیڑھیوں پر چڑھ گئے اور وہ بے حسی سے دیکھتی رہی۔ آپ نے سوچا شاید بھُوکی ہے۔ اُن کے والد نے اُن کے لئے ایک پراٹھا رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے آدھا کُتیا کو ڈال دیا، وہ فوراً کھا گئی پھر بے حسی سے دیکھنے لگی۔ آپ نے باقی آدھا بھی اُسے ڈال دیا، اور خود سارا دن بھوکے رہے۔رات کو اُن کے والد کو بشارت ہوئی کہ تمہارے بیٹے کا عمل مجھے پسند آیا ہے اور وہ منظور ِنظر ہو گیا ہے۔
جب سبکتگین ہرنی کا بچا جنگل سے اُٹھا کر چل پڑاتو دیکھا کہ گھوڑے کے پیچھے پیچھے ہرنی بھی دوڑ رہی ہے۔ سبکتگین رُک گیا ، دیکھا ہرنی بھی کھڑی ہو گئی اور اپنے منہ کو اُس نے آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ سبکتگین نے دیکھا کہ اُس وقت اُس کے آنسو بہہ رہے تھے اور سبکتگین نے بچے کو آزاد کر دیا ۔ اس واقعہ کے بعد سبکتگین پر اتنا اللہ کا کرم ہوا کہ رب کے نام پر اکثر رویا کرتا تھا۔
مولانا روم کہتے ہیں کہ:یک زمانہ صحبت ِ با اولیاء…بہتراست صد سالہ طاعت بے ریا
(ولی کی ایک لمحہ کی صحبت سوسالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہے)۔
حدیثِ قدسی :’’ میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ،
اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے۔‘‘
ابو ذر غفاری:یوم محشر میں لوگ ولی کو پہچان کر کہیں گے،’’اے اللہ ! میں نے اُس کو وضو کرایا تھا‘‘ جواب آئے گا، اُس کو بخش دو! دوسرا کہے گا:یا اللہ میں نے اِسے کپڑے پہنائے یا کھانا کھِلایا تھا۔ جواب آئیگا، اِسے بھی بخش دو۔اس طرح بے شمار لوگ ان کے ذریعے بخشے جائینگے۔
حدیث قدسی:جس کسی نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی کری، میں اُس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔ اللہ کی جنگ ایک دن کا سر کاٹنا نہیں ہوتا بلکہ اُن کا ایمان کاٹ دیا جاتا ہے۔ جو اگلی ساری زندگی میں دوزخ میں روزانہ اذیت سے سر کٹتا رہیگا۔ جیسا کہ بِلیم باعور جو بہت بڑا عالم اور عابد تھا لیکن موسیٰ کی دشمنی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا گیا۔لوگ کہتے ہیں: ’’رب عبادت سے ملتا ہے‘‘۔ہم کہتے ہیں:’’رب دِل سے ملتا ہے‘‘ ۔ عبادت دِل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے،اگر عبادت سے دِل صاف نہیں ہوا تو رب سے بہت دور ہے۔ حدیث:’ نہ عملوں کو دیکھتا ہوں، نہ شکلوں کو بلکہ نیتوں اور قلوب کو دیکھتا ہوں‘۔ البتہ عبادت سے جنت مل سکتی ہے لیکن جنت بھی رب سے بہت دور ہے۔ ’’یہ علم باطن صرف اُن لوگوں کیلئے ہے جو حور و بہشت کی پرواہ کئے بغیر رب سے محبت، قرب اور وصال چاہتے ہیں‘‘۔
پھر بقول سورۃ کہف: اللہ اُنہیں کسی ولی مرشد سے ملادیتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی کسی بھی ادا سے مہربان ہوجاتا ہے تو اُسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے۔اُس کا پیار سے دیکھنا ہی بندے کے گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ اُس کے پاس بیٹھنے والے بھی نظر رحمت کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔رب کے دوست اصحاب ِ کہف سوتے رہے یا مراقبہ میں رہے، اللہ اُن کو پیار سے دیکھتا رہا جس کی وجہ سے اُن کا ساتھی کتا بھی حضرت قطمیر بن کر جنت میں جائیگا۔ جب شیخ فریدؒ اللہ کی نظر رحمت میں آئے تو ساتھ بیٹھا ہوا چرواہا بھی رنگا گیا۔
جب اللہ ابو الحسن کی کسی ادا پر مہربان ہوا تو ہمکلامی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک دِن اُسے کہا:اے ابوالحسن اگر تیرے متعلق میں لوگوں کو بتا دوں تو لوگ تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کردیں۔اُنہوں نے جواب دیا:اگر میں تیرے متعلق لوگوں کو بتا دوں کہ تُو کتنا مہربان ہے تو تجھے کوئی بھی سجدہ نہ کرے رب نے کہا :ایسا کرنہ تُو بتا، نہ ہم بتا تے ہیں۔
جب تیسری بار زید کو شراب کے جرم میں لایا گیاتو اصحابہ نے کہا:اِس پر لعنت ، بار بار اِسی جرم میں آتا ہے۔حضورؐ نے فرمایا:لعنت مت کرو یہ اللہ اور اُس کے حبیب سے محبت بھی کرتا ہے، جو اللہ رسول سے محبت کرتے ہیں دوزخ میں نہیں جاسکتے۔
بے شک اللہ کُل مخلوق سے محبت کرتا ہے اور سب مخلوق کا خیال رکھتا ہے معذور کیڑے کو پتھر میں بھی رزق پہنچاتا ہے لیکن جس طرح نافرمان اولاد کو سزا اور عاق کیا جاتا ہے، اِسی طرح نافرمانوں اور گستاخوں کیلئے وہ قہار بن جاتا ہے۔
یقین کرو تمہیں بھی رب دیکھنا چاہتا ہے لیکن تم انجان، لاپرواہ یا بد بخت ہو۔جسے لوگ دیکھتے ہیں اُسے روز صابن سے دھوتے ہو، روز کریم لگاتے اور خط بناتے ہو اور جسے رب نے دیکھنا ہے کیا تُو نے کبھی اُسے بھی دھویا ہے؟
حدیث:ہر چیز کو دھونے کیلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہے جبکہ دِلوں کو دھونے کیلئے اللہ کا ذکر ہے۔
پاکیزہ محبت کا تعلق بھی دِل سے ہوتا ہے زبان سےI Love You کہنے والے مکار ہوتے ہیں۔ محبت کی نہیں جاتی…ہوجاتی ہے، جو بھی دِل میں اُتر جائے۔رب کو دِل میں اُتارنے کیلئے تصور، قلبی ذکر اور ولی اللہ ہوتے ہیں۔
صرف گاڑی کا انجن منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا جب تک دوسری چیزیں بھی یعنی اسٹیرنگ، ٹائر وغیرہ نہ ہوں۔ اِسی طرح نماز بھی تزکیہ ِنفس اور تصفیہ قلب کے بغیر ادھوری ہے۔ اگر اِن لوازمات کے بغیر نماز ہی سب کچھ …اور جنت ہے پھر تم دوسروں کو کافر، مرتد اور دوزخی کیوں کہتے ہو جبکہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں۔فرق یہ ہی ہے کوئی عیسیٰ کے گدھے پر سوار ہے اور کوئی دجال کے گدھے پر سوار ہے یعنی اندر سے دونوں کالے۔ صرف عقیدوں کا فرق ہوا جبکہ عقیدے اِدھر رہ جائینگے، اندر کی روحیں آگے جائینگی۔
زبان میں نماز لیکن دِل میں خرافات، حرص و حسد، یہ نمازِصورت کہلاتی ہے۔عام لوگ اِسی سے خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں اور فرقہ بندی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔اِن کی دین میں تبلیغ فتنہ بن جاتی ہے۔ فرض کیا تم دس پندرہ سال سے کسی فرقے میں رہ کر عبادت کرتے رہے پھر تم دوسرے فرقے کو صحیح سمجھ کر اُس میں شامل ہوگئے۔ اس کا مقصد تمہارا پہلا فرقہ باطل تھا، باطل کی عبادت قبول ہی نہیں ہوتی، یعنی تم نے دس پندرہ سالہ نمازوں کو جھٹلادیا۔ہو سکتا ہے نیا فرقہ بھی باطل ہو! پھر پچھلی بھی گئی اور اگلی بھی گئی۔ پٹی اُتری تو کولہو کے بیل کی طرح وہیں موجود پایا۔عمر برباد ہونے سے بہتر تھا کہ کسی کامل کو ڈھونڈ لیتے۔