آسمان پر روحیں حد سے زیادہ بن گئی تھیں:
مقرب روحیں اگلی صفوں میں تھیں۔عام روحوں کو اس دنیا میں بنائے ہوئے آدموں کی قوموں میں بھیجا۔جو کوئی کالی، کوئی سفید، کوئی پیلی اور کوئی لال مٹی سے بنائے گئے تھے۔انہیں جبرائیل اور ہاروت ماروت کے ذریعے علم سکھایا گیا۔جب زمین پر مٹی سے آدم بنائے جاتے، خبیث جِن بھی موقع پا کر اُنکے اور اُنکی اولاد کے جسموں میں داخل ہوجاتے اور انہیں اپنی شیطانی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے۔پھر اُنکی قوم کے نبی، ولی اور اُن کی سِکھائی ہوئی تعلیمات چھٹکارے کا ذریعہ بنتی بے شمار آدم جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے جن سے اولاد کا سلسلہ جاری ہوا لیکن کئی بار صرف اکیلی عورت کو بنایا گیا اور "امرِ کُن" سے اس کی اولاد ہوئی۔ وہ قومیں بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔اس قبیلے میں صرف عورتیں ہی سردار ہوتی ہیں اور وہ موئنّث کی اولاد ہونے کی وجہ سے رب کو بھی موئنّث سمجھتے ہیں اور خود کو فرشتوں کی اولاد تصور کرتے ہیں، چونکہ اُنکے موئنّث آدم کی شادی’ یا مرد کے‘ بغیر ہی بچے ہوئے تھے۔یہی رسم اُن میں اب بھی چلی آرہی ہے۔ ان قبیلوں میں پہلے عورت کے کسی سے بھی بچے ہوجاتے ہیں اور بعد میں کسی سے بھی شادی ہوجاتی ہے اور وہ اس کو معیوب نہیں سمجھتے۔ روحوں کے اقرار، قسمت، اور مراتب کی وجہ سے ان ہی جیسے آدم بناکر اُن ہی جیسی روحوں کو نیچے بھیجا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے کوئی خاص دین ترتیب نہیں دیا گیا۔اگر ان میں نبی آئے بھی تو بہت کم نے ان کو تسلیم کیا، بلکہ نبیوں کی تعلیم کا الُٹ کیا، بجائے اللہ کے چاند، ستاروں ، سورج، درختوں ، آگ حتیٰ کہ سانپوں کو بھی پوجنا شروع کردیا۔آخر میں آدم صفی اللہ کو جنت کی مٹی سے جنت میں ہی بنایا گیا تاکہ عظمت اور فضیلت میں سب سے بڑھ جائے اور خبیثوں سے بھی محفوظ رہے، کیونکہ جنت میں خبیثوں کی رسائی نہ تھی۔عزازیل اپنے علم کی وجہ سے پہچان گیا تھا، جو عبادت کی وجہ سے سب فرشتوں کا سردار بن گیا تھا اور قوم ِ جنات سے تھا،آدم کے جسم پر حسد سے تھوکا تھا اور تھوک کے ذریعے خبیثوں جیسا جراثیم اُنکے جسم میں داخل ہوا جسے نفس کہتے ہیں اور وہ بھی آدم کی اولاد کے ورثے میں آگیا۔اُسی کیلئے حضور نے فرمایا:"جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک شیطان جِن بھی اس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے"۔
فرشتوں اور ملائکہ میں فرق ہے ۔ملکوت میں فرشتے ہوتے ہیں جن کی تخلیق روحوں کے ساتھ ہوئی۔ ملکوت سے اوپر جبروت کی مخلوق کو ملائکہ کہتے ہیں۔ جو روحوں کے امر کن سے پہلے کے ہیں رب کی طرف سے آدم صفی اللہ کو سجدہ کا حکم ہوا۔ جبکہ اس سے پہلے نہ ہی کوئی آدم بہشت میں بنایا گیا تھا اورنہ ہی کسی آدم کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ عزازیل نے حجّت کری، سجدہ سے انکاری ہوا تو اُس پر لعنت پڑی اور اس نے صفی اللہ کی اولاد سے دشمنی شروع کردی۔ جبکہ پہلے آدموں کی قومیں اس کی دشمنی سے محفوظ تھیں۔ اُن کے بہکانے کیلئے خبیث جِن ہی کافی تھے۔ چونکہ شیطان سب خبیثوں سے زیادہ پاورفل تھا، اس نے صفی اللہ کی اولاد کو ایسے قابو کیا اور ایسے جرائم سکھائے جس کی وجہ سے دوسری قومیں ان ایشیائیوں سے متنفر ہونے لگیں اور عظمت ِآدم کی ہی وجہ سے جن لوگوں کو رب کی طرف سے ہدایت ملی اتنے خدا رسیدہ اور عظمت والے ہوگئے کہ دوسری قومیں حیرت کرنے لگیں۔ سب سے بڑی آسمانی کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن انہی پر نازل ہوئیں جِن کی تعلیم ، فیض اور برکت سے ایشیائی دین پوری دنیا کی اقوام میں پھیل گیا۔ آدم کی ابھی روح بھی ڈالی نہیں گئی، فرشتے سمجھ گئے تھے کہ اس کو بھی دنیا کیلئے بنایا جارہا ہے۔ کیونکہ مٹی کے انسان زمین پر ہی ہوتے ہیں۔ پھر کسی بہانے زمین پر بھیج دیا گیا۔ ازلی کام اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن الزام بندوں پر لگ جاتا ہے۔ اگرآدم کو بغیر الزام کے دنیا میں بھیجا جاتا تو وہ دنیا میں آکر شکوہ شکایت ہی کرتے رہتے، توبہ تائب اور گریہ زاری کیوں کرتے؟
روز ِ ازل والی جہنمی روح غیر مذہب کے گھر پیدا ہوجائیں۔اُسے کافر اور کاذب کہتے ہیں۔یہی لوگ منکر ِخدا، دُشمنِ انبیاء اور دُشمنِ اولیاء ہوتے ہیں۔ متکبر، سخت دِل اور مخلوق ِخدا کو آزار پہنچا کرخوش ہوتے ہیں۔دوسرا درجہ مذہب میں آکر بھی مذہب سے دور ہوتا ہے۔ یہی روح اگر کسی مذہبی دیندار گھرانے میں پیدا ہوجائے تو اُسے منافق کہتے ہیں۔
یہی لوگ گستاخ انبیاء، جلیس اولیاء اور مذاہب میں فتنہ ہوتے ہیں۔اِنکی عبادت بھی ابلیس کی طرح بیکار ہوتی ہے۔ اِنہیں مذہب جنت میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مقدر دوزخ کی طرف کھینچتا ہے۔ چونکہ نبیوں، ولیوں کی امداد سے محروم ہوتے ہیں اسلئے شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آجاتے ہیں کہ تُو اتنا علم جانتا ہے اور اتنی عبادت کرتا ہے تجھ میں اور نبیوں میں کیا فرق ہے؟ پھر وہ اپنا باطن دیکھے بغیرخود کو نبی جیسا سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں اور ولیوں کو اپنا محتاج سمجھتے ہیں۔پھر روحانیت اور کرامتوں کے اقراری نہیں ہوتے بلکہ اُسی عمل کے اقراری ہوتے ہیں جنکی اُن میں خود کی صلاحیت ہوتی ہے،حتیٰ کہ معجزوں کو بھی جادو کہہ کر جھٹلادیتے ہیں۔ابلیس کی طاقت کو مان لیتے ہیں لیکن انبیا ء و اولیا ء کی طاقت کو مان لینا اِن کیلئے مشکل ہے۔
ازل والی بہشتی روح اگر غیر مذہب یا گندے ماحول میں آجائے تو اُسے معذور کہتے ہیں۔ معذور کیلئے معافی اور بخشش کا اِمکان ہوتا ہے یہی روحیں صراط ِ مستقیم کی تلاش میں ،اور دلدل سے نکلنے کیلئے ولیوں کا سہارا ڈھونڈتی ہیں۔نرم دِل، عاجز اور سخی ہوتے ہیں۔
اگر بہشتی روح کسی آسمانی مذہب اور دینی گھرانے میں پیدا ہوجائے تو اُسے صادق اور مومن کہتے ہیں۔یہی لوگ عبادت و ریاضت سے اللہ کا قرب حاصل کرکے اُس کی وراثت کے حقدار ہوجاتے ہیں۔