سوچ تو ذرا تو کس آدم کی اولاد میں سے ہے؟
کچھ الہامی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس دنیا میں چودہ (۱۴) ہزار آدم آچکے ہیں۔اور کسی نے کہا ہے کہ آدم صفی اللہ چودھواں اور آخری آدم ہیں۔اس دنیا میں واقعی بہت سے آدم ہوئے ہیں۔جب صفی اللہ کو مٹی سے بنایا جارہا تھا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ بھی دنیا میں جاکر دنگا فساد کریگا۔یعنی فرشتے پہلے والے آدموں کے حالات سے باخبر تھے ورنہ انہیں کیا خبر کہ اللہ کیا بنارہا ہے اور یہ جاکر کیا کریگا۔لوح محفوظ میں مختلف زبانیں،مختلف کلمے، مختلف جنتر منتر، مختلف اللہ کے نام، مختلف سورتیں حتیٰ کہ جادو کا عمل بھی درج ہے جو کہ ہاروت ماروت دو فرشتوں نے لوگوں کو سکھایا تھا اور بطور سزا وہ دونوں فرشتے مصر کے ایک شہر بابل کے کنویں میں اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں۔
ہر آدم کو کوئی زبان سکھائی پھر ان کی قوم میں نبیوں کو ہدایت کیلئے بھیجا۔تب ہی کہتے ہیں کہ دنیا میں سوا لاکھ نبی آئے،جبکہ آدم صفی اللہ کو آئے ہوئے چھ(۶) ہزار سال ہوئے ہیں۔اگر ہر سال ایک نبی آتا تو چھ ہزار ہی ہوتے۔کچھ عرصہ بعد ان اقوام کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کیا۔جیسا کہ آثار قدیمہ کے شہروں کا بعد میں نمودار ہونا اور وہاں کی لکھی ہوئی زبانوں کو کسی کا بھی نہ سمجھنا۔اور کسی قوم کو پانی کے ذریعے غرق کیا۔اور ان میں سے نوح طوفان کی طرح کچھ افراد اُن خطوں میں بچ بھی گئے۔آخر میں صفی اللہ کو اُن سب سے بہتر بنا کر عرب میں بھیجا گیا اور بڑے بڑے نبی بھی اس آدمؑ کی اولاد سے پیدا ہوئے۔مختلف آدموں کی مختلف زبانیں اُن کی بچی ہوئی قوموں میں رہیں،جب آخری آدم آئے تو اُن کو سریانی زبان سکھائی گئی۔جب آپ کی اولاد نے دُوردراز کی سیاحت کی تو پہلے والی قوموں سے بھی ملاقات ہوئی،اور کسی نے اچھی جگہ یا سبزہ دیکھ کر اُن کے ساتھ ہی بودو باش اختیار کرلی۔عرب میں سریانی ہی بولی جاتی تھی پھر یہ اقوام کے میل جول سے عربی، فارسی، لاطینی، سنسکرت وغیرہ سے ہوتی ہوئی انگریزی سے جا ملی۔ مختلف جزیروں میں مختلف آدموں کی اولاد مقیم تھی۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش بھی آدم تھا جس کی اولاد آج بھی موجود ہے اور جس کے ذریعے مختلف قومیں دریافت ہوئیں۔ سمندر پار کے جزیروں والی قومیں ایک دوسرے سے بے خبر تھیں۔ اتنے دور دراز سمندری سفر نہ تو گھوڑوں سے کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی چپو والی کشتیاں پہنچا سکتیں تھیں۔ کولمبس مشینی سمندری جہاز بنانے میں کامیاب ہوا جس کے ذریعے وہ پہلا شخص تھا جو امریکہ کے خطے کو پہنچا۔ کنارے پر لوگوں کو دیکھا جو سُرخ تھے اُس نے سمجھا اور کہا شاید انڈیا آگیا ہے اور وہ انڈین ہیں۔تب ہی اس قوم کو ریڈانڈینRed Indian کہتے ہیں جو نارتھ ڈکوٹا کی ریاست میں اب بھی موجود ہیں۔ریڈانڈین کے ایک قبیلے کے سردار سے پوچھا کہ آپ کا آدم کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب کے مطابق ہمارا آدم ایشیا میں ہے جس کی بیوی کا نام حوا ہے لیکن ہماری تاریخ کے مطابق ہمارا آدم ساؤتھ ڈکوٹاSouth Dakota کی ایک پہاڑی سے آیا تھا۔ اُس پہاڑی کی نشان دہی اب بھی موجود ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ انگریز اور امریکن ٹھنڈے موسم کی وجہ سے گورے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ کسی کالے آدم کی نسل بھی ان خطوں میں قدیمی موجود ہے وہ آج تک گورے نہ ہوسکے یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے رنگ، حلیے، مزاج، دماغ، زبانیں، خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ آدم صفی اللہ کی اولاد کا سلسلہ وسط ایشیا تک ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وسط ایشیا والوں کے حلیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آدم صفی اللہ(شنکر جی) سری لنکا میں اُترے ، پھر وہاں سے عرب پہنچے اور اس کے بعد آپ عرب میں ہی رہے اور سرزمین عرب میں ہی آپ کی قبر موجود ہے تو پھر سری لنکا میں آپ کے اُترنے اور قدموں کی نشان دہی کس نے کی؟ جو ابھی تک محفوظ ہے۔ اس کا مقصد آپ سے پہلے ہی وہاں کوئی قبیلہ آباد تھا۔ جو قومیں ختم کردی گئیں ہیں ان پر نبوت اور ولائت بھی ختم ہوگئی اور باقی ماندہ لوگ ان ہستیوں سے محروم ہوکر کچھ عرصہ بعد بھٹک گئے۔جوں جوں یہ خطے دریافت ہوتے گئے ایشیا سے ولی پہنچتے گئے اور اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم دیتے رہے اور آج سب خطوں میں ایشیائی دین پھیل گیا۔عیسیٰ یروشلم، موسیٰ بیت المقدس، حضور پاک مکہ، جبکہ نوح اور ابراہیم کا تعلق بھی عرب سے ہی تھا۔
کچھ نسلیں عذابوں سے تباہ ہوئیں، کچھ کی شکلیں ریچھ، بندروں کی طرح ہوئیں۔کچھ رہے سہے لوگ خوفزدہ ہوکر رب کی طرف مائل ہوئے۔اور کچھ رب کو قہار سمجھ کر اس سے متنفر ہوگئے اور اس کے کسی بھی قسم کے حکم کی نافرمانی کی اور کہنے لگے کہ’’رب وغیرہ کچھ بھی نہیں، انسان ایک کیڑہ ہے،دوزخ بہشت بنی بنائی باتیں ہیں‘‘۔موسیٰ کے زمانے میں بھی جو قوم بندر بن گئی تھی انہوں نے یورپ کا رُخ کیا تھا۔اس وقت کی حاملہ ماؤں نے بعد میں بندریا ہونے کی صورت میں بھی جنم انسانی دیا تھا وہ قوم اب بھی موجود ہے، وہ خود کہتے ہیں کہ ہم بندر کی اولاد میں سے ہیں۔جو قوم ریچھ کی شکل میں تبدیل ہوئی تھی انہوں نے افریقہ کے جنگلوں کی طرف رخ کر لیا تھا۔اس وقت کی حاملہ ماؤں کے پیٹ میںتو انسانی بچے تھے جن کے ذریعے بعد میں نسل چلی(مم) کہتے ہیں۔جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں۔مادہ زیادہ ہوتی ہیں۔انسانوں کو اُٹھاکر لے بھی جاتی ہیں۔ان پر مذہب کا رنگ نہیں چڑھتا لیکن آدمیت کی وجہ سے شرمگاہوں کو پتوں کے ذریعے چھپایا ہوا ہوتا ہے۔
کسی اور آدم کو کسی غلطی کی وجہ سے ایک ہزار سال کی سزا ملی تھی اُسے سانپ کی شکل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔اب اس کی بچی ہوئی قوم جو ایک خاص قسم کے سانپ کے روپ میں ہے۔جنم کے ہزار سال بعد انسان بھی بن جاتی ہے۔اِسے روحا کہتے ہیں۔تاریخ میں ہے کہ ایک دن سکندر اعظم شکار کیلئے کسی جنگل سے گزرا،دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت رو رہی ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں چین کی شہزادی ہوں اپنے شوہر کے ہمراہ شکار کو نکلے تھے لیکن شوہر کو شیر کھا گیا، میں اب تنہا رہ گئی ہوں۔سکندر نے کہا:’’ میرے ساتھ آؤ ! میں تمہیں واپس چین بھیجوا دونگا‘‘، عورت نے کہا:’’ شوہر تو مر گیا، میں اب واپس جاکر کیا منہ دِکھاؤں گی‘‘۔ سکندر اِسے گھر لے آیا اور اس سے شادی کر لی۔ کچھ مہینوں بعد سکندر کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا۔ہر قسم کا علاج کرایا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ درد بڑھتا گیا۔حکیم عاجز آگئے ۔ایک سپیرا بھی سکندر کے علاج کیلئے آیا۔ اس نے سکندر کو علیحدہ بُلوا کر کہا:’’ میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں، لیکن میری کچھ شرطیں ہیں،اگر چند ہی دنوں میں میرے علاج سے شفا نہ ہوئی تو بے شک مجھے قتل کرادینا، آج کی رات کھچڑی پکواؤ، نمک ذرا زیادہ ہو، دونوں میاں بیوی پیٹ بھر کر کھاؤ، کمرے کو اندر سے تالا لگاؤ کہ دونوں میں سے کوئی باہر نہ جاسکے،تم کو سونا نہیں، لیکن بیوی کو ایسا لگے کہ تم سورہے ہو، پانی کا قطرہ بھی اندر موجود نہ ہو‘‘۔سکندر نے ایسا ہی کیا۔ رات کے کسی وقت بیوی کو پیاس لگی، دیکھا پانی کا برتن خالی ہے، پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی، دیکھا کہ تالا ہے، پھر شوہر کو دیکھا، محسوس ہوا کہ بے خبر سورہاہے، پھر سپنی بن کے نالی کے سوراخ سے باہر نکل گئی۔ پانی پی کر پھر سپنی کی صورت میں داخل ہوکر عورت بن گئی۔ سکندر اعظم یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ صبح سپیرے کو سب کچھ بتا یا،اُس نے کہا:’’ تیری بیوی ناگن ہے جو ہزار سال بعد روپ بدلتا ہے، اس کا زہر پیٹ کے درد کا باعث بنا‘‘۔پھر اس عورت کو سیر کے بہانے سمندر میں لے گئے اور جس جگہ پھینکا وہ نشان اب بھی موجود ہے۔ اسے سد سکندری کہتے ہیں۔ ان کی نسل بھی اس دنیا میں موجود ہے۔ عام سانپوں کے کان نہیں ہوتے لیکن اس نسل والے سانپ کے کان ہوتے ہیں۔پتہ نہیں کس آدم کا قبیلہ چین کے پہاڑوں میں بند ہے۔اُن کے اس خطے میں داخلہ کو روکنے کیلئے ذوالقرنین نے پتھروں کی دیوار بنادی تھی۔ ان کے لمبے لمبے کان ہیں، ایک کو بچھا لیتے ہیں اور دوسرے کو اوڑھ لیتے ہیں،انہیں جوج ما جوج کہتے ہیں۔ سائنس نے کافی خطے تلاش کرلئے ہیں لیکن ابھی بھی کافی خطے دریافت کرنے باقی ہیں۔ھمالیہ کے پیچھے بھی برفانی انسان موجود ہیں۔۔ بہت سے انسان جنگلوں میں بھی موجود ہیں اُنکی زبان اُنکے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ بھی اپنے آدم کے طریقہ پر عبادت کرتے ہیں اور ضابطہ ٔحیات کیلئے ان کا بھی سرداری نظام قائم ہے۔ ان براعظموں کے علاوہ اور بھی بڑی زمینیں ہیں۔جیسا کہ چاند، سورج، مشتری، مریخ وغیرہ ، وہاں بھی آدم آئے لیکن وہاں قیامتیں آچکی ہیں۔ کہیں آکسیجن کو روک کر اور کہیں زمین کو تہس نہس کردیا گیا۔