Skip to content

انسان ازل سے ابد تک

جب اللہ نے روحوں کو بنانا چاہا تو کہا: کُن، تو بیشمار روحیں بن گئیں۔ اللہ کے سامنے اور قریب ارواح نبیوں کی، پھر دوسری صف میں ولیوں کی، پھر تیسری صف میں مؤمنین کی، پھر ان کے پیچھے عام انسانوں کی، پھر حد ِنگاہ سے دور صف میں عورتوں کی روحیں بن گئیں ، پھر ان کے پیچھے روح ِحیوانی،پھر روح نباتی اور پھر ایسی روح جمادی جن میں ہلنے جلنے کی طاقت بھی نہ تھی، نمودار ہو گئیں ۔ اللہ کے دائیں طرف فرشتوں کی اور پھر اس کے بعد حوروں کی ارواح تھیں، جو رب کے چہرے کو نہ دیکھ سکیں ، یہی وجہ ہے کہ فرشتے رب کا دیدار نہیں کر سکے۔ پھر پیچھے نوری مؤکلات کی روحیں جو دنیا میں آکر نبیوں، ولیوں کی امدادی ہوئیں۔ پھر بائیں جا نب جنات کی روحیں ، پھر پیچھے سفلی مؤکلات، پھر خبیثوں کی روحیں جودنیا میں آکر ابلیس کی امدادی ہوئیں ۔ دائیں ، بائیں اور حدِنگاہ سے دور والی ارواح رب کا جلوہ نہ دیکھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن، فرشتے اور عورتیں رب سے ہمکلام ہو سکتے ہیں لیکن دیدار نہیں کر سکتے۔کرۂ ارض میں ایک آگ کا گولہ تھا ، حکم ہوا : ٹھنڈا ہو جا! پھر اس کے ٹکڑے فِضا میں بکھر گئے۔ چاند،مریخ، مشتری، یہ دنیا اور ستارے سب اسی کے ٹکڑے ہیں جبکہ سورج وہی باقی ماندہ گولہ ہے۔ یہ زمین راکھ ہی راکھ بنی۔ جمادی روحوں کو نیچے بھیجا گیا جن کے ذریعے راکھ جم کر پتھر ہو گئی۔پھر نباتی روحوں کو بھیجا گیا جس کی وجہ سے پتھروں میں درخت بھی اُگ آئے۔ پھر حیوانی روحوں کے ذریعے حیوان نمودار ہوئے۔اللہ نے سب روحوں سے یہ بھی پوچھا تھا :کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ سب نے اقرار کیا اور سجدہ کیا تھا یعنی پتھروں اور درختوں کی روحوں نے بھی سجدہ کیا تھا۔(والنجم والشجر یسجدان) سورۃ الرحمٰن القرآن۔پھر اللہ نے روحوں کے امتحان کے لئے مصنوعی دنیا، مصنوعی لذّات بنائے اور کہا : ’اگر کوئی ان کا طالب ہے تو حاصل کر لے‘۔ بیشمار روحیں اللہ سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف لپکیں اور دوزخ اُن کے مقدر میں لکھ دی گئی۔ پھر اللہ نے بہشت کا نظارہ دکھایا جو پہلی حالت سے بہتر اور اطاعت و بندگی والا تھا۔ بہت سی روحیں ادھر لپکیں ان کے مقدر میں بہشت لکھ دی گئی۔ بہت سی روحیں کوئی فیصلہ نہ کر پائیں ۔ انہیں پھر رحمٰن اور شیطان کے درمیان کر دیا ۔ وہی روحیں دنیا میں آکر بیچ میں پھنس گئیں ، پھر جس کے ہاتھ لگ گئیں (اُس ہی کی ہو گئیں ) ۔ بہت سی روحیں اللہ کے جلوے کو دیکھتی رہیں ، نہ دنیا کی اور نہ ہی جنت کی طلب، اللہ کو اُن سے محبت اور اُنہیں اللہ سے محبت ہو گئی۔ انہی روحوں نے دنیا میں آکر اللہ کی خاطر دنیا کوچھوڑا اور جنگلوں میں بسیرا کیا ۔ روحوں کی ضرورت اور دل لگی کے لئے اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق، چھ ہزار پانی میں ، چھ ہزار خشکی میں اور چھ ہزار ہوائی اور آسمانی پیدا کی گئی۔پھر اللہ نے سات قسم کی جنت اور سات قسم کی دوزخ بنائی

جنتوں کے نام

۱۔ خلد ، ۲۔ دارالسلام، ۳۔ دارالقرار ، ۴۔ عدن، ۵۔ الماویٰ ، ۶۔ نعیم ، ۷۔ فردوس

دوزخوں کے نام

۱۔ سقر ، ۲۔ سعیر، ۳۔ نطیٰ ، ۴۔ حطمہ، ۵۔ جحیم ، ۶۔ جہنم، ۷۔ ہاویہ

مندرجہ بالا سارے نام سُریانی زبان کے ہیں۔ وہ زبان جس میں اللہ، فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ سب مذاہب کا عقیدہ ہے کہ جسے اللہ چاہے دوزخ میں اور جسے چاہے بہشت میں بھیج دے۔اگر وہیں سے جس روح کودوزخ میں بھیجا جاتا تو وہ اعتراض کرتی کہ میں نے کونساجرم کیا تھا ؟ اللہ کہتا: تو نے میری طرف سے منہ موڑ کر دنیا طلب کری تھی ، روح کہتی: وہ تو صرف نادانی میں اقرار تھا، عمل تو نہیں کیا تھا! پھر اس حجت کو پورا کرنے کیلئے روحوں کو نیچے اس دنیا میں بھیجا۔آدم ؑجنہیں شنکر جی بھی کہتے ہیں جنت کی مٹی سے ان کا جسم بنایا گیا۔ پھر روح انسانی کے علاوہ کچھ اور مخلوقیں بھی اُس میں ڈال دی گئیں۔ جب آدمؑ کا جسم بنایا جارہا تھا تو شیطان نے حسد سے تھوکا تھا، جو ناف کی جگہ گرا اور اس تھوک کے جراثیم بھی اس جسم میں شامل ہوگئے۔ شیطان جنات قوم سے ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیدا ہوتا ہے، جسم تو صرف مٹی کا مکان تھا جس کے اندر سولہ(۱۶) مخلوقوں کو بند کردیا، جبکہ خناس اور چار پرندے اور بھی ہیں۔ آدمؑ کی بائیں پسلی سے عورت کی شکل میں مواد نکلا۔اس میں روح ڈال دی گئی جو مائی حوا بن گئی۔ بعد میں بہشت سے نکال کرآدم ؑ کو سری لنکا اور مائی حوا کو جدہ میں اتارا گیا۔ جن کے ذریعے ایشیائیوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور آسمان سے باقی روحیں بھی بتدریج آنا شروع ہوگئیں۔روحوں کی تعلیم و تربیت اور مدارج کیلئے مذاہب کی صورت میں مدرسے قائم ہوئے اور روز ازل کی تقدیر کے مطابق کوئی کسی مذہب میں اور کوئی بے مذہب ہی رہیں۔ اللہ کی محّب روحیں بھی اس دنیا میں آئیں کوئی مسلم کے گھر کوئی ہندوؤں، کوئی سکھوں اور کوئی عیسائیوں کے گھروں میں پیدا ہوگئیں اور اپنے مذہب کے ذریعے اللہ کو پانے کی کوشش کرنے لگیں یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب کے خواص نے رہبانیت اختیار کی، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے یہ عقیدہ غلط ہے۔ حضور پاک بھی غار ِحرا میں جایا کرتے تھے۔شیخ عبدالقارد جیلانیؓ، خواجہ معین الدین اجمیری، داتا علی ھجویری، بری امام، بابا فرید، شہباز قلندرؓ وغیرہ نے بھی رہبانیت کے بعد ہی اتنے بلند مقام حاصل کئے اور ان ہی کے ذریعے دین کی اشاعت ہوئی۔

Copyright © 2025 Mehdi Foundation International