چند محب ارواح کے چشم دید واقعے
ایک ازلی روح کا واقعہ:
میں امریکہ میں نصف شب کے قریب ایک جنگل سے گزر ا، دیکھا ایک شخص ایک درخت کے آگے سجدہ ریز ہو کر گڑگڑا رہا ہے۔تقریباً ایک گھنٹہ بعد میری واپسی ہوئی، ابھی بھی وہ اسی حالت میں تھا، میں قریب جاکر رُک گیا، اُس نے مجھے محسوس کر کے سجدے سے سر اُٹھایا اور کہا:مجھے ڈسٹرب کیوں کیا؟میں نے کہا:میں بھی رب کی تلاش میں ہوں، لیکن درخت سے کیسے رب ملے گا؟بہتر تھا کسی مذہب کے ذریعے رب کو حاصل کرتا!کہنے لگا:بائبل، قرآن یا جو بھی آسمانی کتابیں ہیں، میں اُنکی (Original)اوریجنل زبان نہیں جانتا اور ان کتابوں کے جو ترجمے ہوئے ہیں،میں اُن سے مطمئن نہیں، کیونکہ ان میں زبردست تضاد ہے جس کی وجہ سے یہ یقین نہیں ہوسکتا کہ یہ کسی ایک ہی خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی کتابیں ہوں۔ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ میرا بیٹا ہے جبکہ دوسری کتاب میں ہے کہ میرا کوئی بیٹا وغیرہ نہیں ہے۔’’ایک عرصہ اُن کے مطالعہ میں میرا وقت اور عمر برباد ہوئی۔ میں نے اب دوسرا راستہ اختیار کیا ہے کہ یہ درخت اتنا خوبصورت ہے، اس کا مقصد رب اس سے محبت کرتا ہے، ہوسکتا ہے اِسی کے ذریعے میری رب تک رسائی ہوجائے‘‘۔یہ کوئی ازلی محبّ روح تھی جو اپنی عقل کے مطابق رب کی تلاش میں تھی۔کیا ایسے لوگ دوزخ میں جاسکتے ہیں ؟جو کہ معذور کہلاتے ہیں اور یہی کتے سے بھی قطمیر بن جاتے ہیں، جبکہ حضرت قطمیر کا بھی کوئی مذہب نہیں تھا۔
(Arizona)ایریزوناکی مِس کیتھرین نے واقعہ سُنایا کہ:
’’ میں نے انجیلا سے ذکر قلبی کی اجازت لی، انجیلا نے کہا:سات دِن کے اندر اندر اگر دِل میں اللہ اللہ شروع ہوگئی تو سمجھنا کہ رب نے تمہیں قبول کرلیا ہے، ورنہ تیری زندگی فضول ہے۔جب سات دِن کی محنت سے بھی میرا ذکر جاری نہ ہوا تو ایک رات مجھے سخت رونا آیا۔میں خوب گڑگڑائی اُسی رات میرے اندر اللہ اللہ شروع ہوگئی جو تین سال سے جاری ہے۔کیتھرین عمر کی قائل نہیں بلکہ تندرستی کی قائل ہے، اِسی طرح وہ مذہب کی بھی قائل نہیں بلکہ اُس کی محبت کی قائل ہے۔اُس کا کہنا ہے کہ اِس ذکر کی وجہ سے میرے دِل میں رب کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، میرے لئے یہی کافی ہے‘‘۔
ایک ہندو گرو سے ملاقات:
میں اُس وقت سیون کی پہاڑیوں میں تھا، کبھی کبھی لعل شہباز کے دربار چلا جاتا۔ایک شخص دربار کے باہر برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا، بہت سے ہندو مذہب کے لوگ اُس کے گِرد بڑی عقیدت سے جمع تھے پوچھا:یہ کون بزرگ ہے؟ کہنے لگے یہ ہندوؤں کا گرو ہے، روشن ضمیر بھی ہے اِسی کے ذریعے ہماری درخواستیں لعل سائیں تک پہنچتی ہیں اور ہمارے کام ہوجاتے ہیں۔بہت سے مسلمان بھی اُس کی عزت کرتے تھے۔ ایک دن میراایک ٹیلے سے گُزر ہوا دیکھا وہی شخص سامنے ایک بُت رکھ کر سجدے کی حالت میں کچھ پڑھ رہا ہے۔ دوسرے دن دربار میں ملاقات ہوئی، میں نے کہا: تجھ جیسے روشن ضمیر کا مٹی کے بُت کو پوجنا میری سمجھ سے باہر ہے۔ اُس نے جواب دیا : میں بھی اِسے کوئی رب نہیں سمجھتا البتہ میرا عقیدہ ہے اور تمہاری کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا اس وجہ سے طرح طرح کی صورتیں بنا کر پوجتا ہوں ،پتا نہیں کون سی صورت رب سے مل جائے۔ اُس نے کہا: تو بھی روشن ضمیر ہے بتا کہ اللہ کی صورت کیسی ہے اور کس بُت سے ملتی ہے؟ تاکہ میں اُسے من میں بسا سکوں ۔
میری عمر کوئی سولہ سترہ کے لگ بھگ تھی۔اپنے خاندانی بزرگ بابا گوہر علی شاہ کے دربار پر ایک دِن سورۃ مزّمل کی تلاوت کر رہا تھا اتنے میں ایک لمبے قد کا آدمی فقیری حُلیے میں میرے سامنے آیا اور کہنے لگا:خواہ مخواہ چنے چبا رہا ہے، بزرگ صورت تھا میں خاموش رہا لیکن دِل میں یہی تھا کہ یہ ضرور کوئی شیطان ہے جو مجھے تلاوت سے روک رہا ہے۔عرصہ گزر گیا جب ذکر ِقلب جاری ہوا تو میری عمر پینتیس{35}سال کے لگ بھگ تھی۔بتائے ہوئے طریقے سے زبان سے سورۃ مزّمل کی آیت پڑھتا پھر خاموش ہوجاتا کہ دِل پڑھے پھر دِل سے اِسی آیت کی آواز آتی۔ ایک دِن اِسی مشق میں مگن اور مسرور تھا کہ پھر وہی شخص اُسی حلیے میں ظاہر ہوا اور کہنے لگا:اب تُو قرآن پڑھ رہا ہے۔جب تک تریاق معدے میں نہ جائے شفا نہیں ہوتی، جب تک کلام ِالٰہی دِل میں نہ اُترے کوئی بات نہیں بنتی اُس نے شعر سنایا۔
زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا ۔۔۔۔۔۔۔ دل دا پڑھدا کوئی ھو
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے ۔۔۔۔۔۔۔ کی جانن یار گلوئی ہو
داتا دربار کی مسجد میں جب نماز سے فارغ ہوا دیکھا ایک عمر رسیدہ شخس نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کر رہا ہے۔ میں نے بھی یہ محسوس کی کہ سوائے جوتیاں سیدھی کرنے کے اُس نے کوئی نماز نہیں پڑھی کیونکہ میں پچھلی صف میں تھا، جاتے وقت میں نے کہا:آپ نے نماز تو نہیں پڑھی، اِن جوتیوں سے آپ کو کیا ملے گا؟کہنے لگا: نماز تو عمربھرنہیں پڑھی اب بڑھاپے میں نماز سے بخشش کی کیا امید رکھوں۔بس ایک امید پر قائم ہوں کہ اتنے لوگوں میں سے کوئی ایک تو رب کا دوست ہو گا، شاید اِس اَدا سے ہی وہ یا اُس کا یار خوش ہوجائے۔ میں نے کہا :نماز سے بڑھ کر کوئی اَدا نہیں۔ کہنے لگا: یار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اگر وہ راضی ہوجائے!تین سال کی چلہ کشی کے بعد ایک دِن محفل ِحضوری نصیب ہوئی ، دیکھا وہی شخص یار کے قدموں میں تھا۔پھر یہ شعر آیاکہ
؎گناہگار پہنچے درِ پاک پر…زاہد و پارسا دیکھتے رہ گئے