آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ کسی ایک روح کو دنیا میں بھیجے گا جو اِن روحوں کو تلاش کرکے اکھٹا کریگا اور اِنہیں یاد دلائے گا کہ کبھی تم نے بھی اللہ سے محبت کری تھی۔ ایسی تمام روحیں خواہ کسی بھی مذہب یا بے مذہب اجسام میں تھیں اُس کی آواز پر لبیک کہیں گی اور اُس کے گرد اکھٹی ہوجائینگی۔ وہ رب کا ایک خاص نام اِن روحوں کو عطا کریگا جو قلب سے ہوتا ہوا روح تک جاپہنچے گا اور پھر روح اُس نام کی ذاکر بن جائیگی۔ وہ نام روح کو ایک نیا ولولہ، نئی طاقت اور نئی محبت بخشے گا۔اُس کے نور سے روح کا تعلق دوبارہ اللہ سے جڑ جائیگا۔
ذکر قلب، ذکر روح کا وسیلہ ہے۔ جیسا کہ بندگی یعنی نماز، روزہ ذکر قلب کا وسیلہ ہے۔ اگر کسی کی روح اللہ کے ذکر میں لگ گئی تو وہ اُن لوگوں سے ہے جنہیں ترازو، یوم محشر کا بھی خوف نہیں روح کے آگے کے ذکر اور عبادت اُس کے بلند مراتب کے شواہد ہیں۔جن لوگوں کی منزل قلب سے روح کی طرف رواں دواں ہے وہی دین الٰہی میں پہنچ چکے یا پہنچنے والے ہیں۔اِن کو کتابوں سے نہیں بلکہ نور سے ہدایت ہے اور نور سے ہی باز گناہ ہوجاتے ہیں اور جو سن کر یا محنت سے بھی اس مقام سے محروم ہیں وہ اس سلسلے میں شامل نہیں ہیں اگر ذکر قلب و روح کے بغیر خود کو اس سلسلے میں متصور کیا یا اُن کی نقل کی تو وہ زندیق ہیں۔ جبکہ عام لوگوں کی بخشش کا ذریعہ عبادات اور مذہب ہیں۔ہدایت کا ذریعہ آسمانی کتب ہیں۔شفاعت کا ذریعہ نبوت اور ولائت ہے۔ بہت سے مسلم ولیوں کی شفاعت کو نہیں مانتے۔ لیکن حضور ؐ نے اصحابہ کو تاکید کری تھی کہ اویس قرنیؓ سے امت کیلئے بخشش کی دعُا کرانا۔