Skip to content

نور بنانے کا طریقہ

پرانے زمانے میں پتھروں کی رگڑ سے آگ حاصل کی جاتی تھی جبکہ لوہے کی رگڑ سے بھی چنگاری اُٹھتی ہے۔ پانی سے پانی ٹکرایا تو بجلی بن گئی۔ اِسی طرح انسان کے اندر خون کے ٹکراؤ یعنی دِل کی ٹک ٹک سے بھی بجلی بنتی ہے۔ہر انسان کے جسم میں تقریباً ڈیڑھ والٹ بجلی موجود ہے۔جس کے ذریعے اس میں پھرتی ہوتی ہے۔بڑھاپے میں ٹک ٹک کی رفتار سُست ہونے کی وجہ سے بجلی میں بھی اور چستی میں بھی کمی آجاتی ہے۔سب سے پہلے دِل کی دھڑکنوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ڈانس کے ذریعے، کوئی کبڈی یا ورزش کے ذریعے، اور کوئی اللہ اللہ کی ضربوں کے ذریعے یہ عمل کرتے ہیں۔جب دِل کی دھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے پھر ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ، یا ایک کے ساتھ اللہ اور دوسری کے ساتھ’’ ھو‘‘ ملائیں۔ کبھی کبھی دِل پر ہاتھ رکھیں، دھڑکنیں محسوس ہوں تو اللہ ملائیں۔کبھی کبھی نبض کی رفتار کے ساتھ ا للہ ملائیں۔تصور کریں کہ اللہ دِل میں جارہا ہے۔اللہ ھو کا ذکر بہتر اور زود اثر ہے۔ اگر کسی کو ’’ ھو ‘‘ پر اعتراض یا خوف ہو تو وہ بجائے محرومی کے دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ ہی ملاتے رہیں۔ وِرد و وظائف اور ذکوریت والے لوگ جتنا بھی پاک صاف رہیں ان کیلئے بہتر ہے، کہ بے ادب… بے مراد…… باادب… بامراد…

پہلا طریقہ:

کاغذ پر کالی پنسل سے اللہ لکھیں، جتنی دیر طبیعت ساتھ دے روزانہ مشق کریں۔ ایک دن لفظ اللہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہوجائے گا پھر آنکھوں سے تصور کے ذریعے دِل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔

دوسرا طریقہ:

زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے’’ اللہ‘‘ لکھیں، اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں۔ جب آنکھوں میں آ جائے تو پھر اُس لفظ کو دِل پراُتاریں۔

تیسرا طریقہ:

یہ طریقہ اُن لوگوں کیلئے ہے جن کے راہبر کامل ہیں اور تعلق و نسبت کی وجہ سے روحانی امداد کرتے ہیں۔تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم خیال کریں اور تصور سے دِل پر اللہ لکھنے کی کوشش کریں۔ راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمہاری انگلی کو پکڑ کر تمہارے دِل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ یہ مشق روزانہ کریں جب تک دِل پر اللہ لکھا نظر نہ آئے۔ پہلے طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے جیسا کہ باہر لکھا یا دیکھا جاتا ہے۔ پھر جب دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہوجاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس طریقے میں کامل راہبر کا ساتھ ہوتا ہے اس لئے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دِل پر اللہ لکھا نظر آتا ہے۔ دنیا میں کئی نبی ولی آئے، ذکر کے دوران بطور آزمائش باری باری، اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظر آئے آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے پھر تصور کیلئے اُسی کو چُن لیں کیونکہ ہر ولی کا قدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے، بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو! اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ ولی کی ظاہری حیات شرط ہے۔ لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہوجاتا ہے لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے۔ البتہ ممات والے درباروں سے دنیاوی فیض پہنچا سکتے ہیں۔ اِسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اور خواب میں اُلجھ جاتے ہیں کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں، دونوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے جس کیلئے ظاہری مرشد زیادہ مناسب ہے۔ اگر فیض ہے !علم نہیں !تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔ فیض بھی ہے، علم بھی ہے اُسے محبوب کہتے ہیں۔محبوب علم کے ذریعے لوگوں کو دنیاوی فیض کے علاوہ روحانی فیض بھی پہنچاتے ہیں جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے دنیاوی فیض پہنچاتے ہیں۔

اگر کوئی بھی آپ کے تصور میں آکر،آپ کی مدد نہ کرے تو پھر " گوہر شاہی " ہی کو آزما کر دیکھیں

مذہب کی قید نہیں! البتہ ازلی بدبخت نہ ہو۔ بہت سے لوگوں کو چاند سے بھی ذکر عطا ہوجاتا ہے۔اُس کا طریقہ یہ ہے: جب پورا چاند مشرق کی طرف ہو، غور سے دیکھیں، جب صورت ِ گوہر شاہی نظر آجائے تو تین دفعہ’ اللہ‘ ’ اللہ‘ ’ اللہ‘ کہیں، اجازت ہوگئی۔ پھر بے خوف و بے خطر درج شدہ طریقے سے مشق شروع کردیں۔ یقین جانئے! چاند والی صورت بہت سے لوگوں سے ہر زبان میں بات چیت بھی کرچکی ہے ۔آپ بھی دیکھ کر بات چیت کی کوشش کریں۔

Copyright © 2025 Mehdi Foundation International