حضرت ریاض احمد گوہرشاہی کا شخصی تعارف
25نومبر1941کو برصغیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ فاطمی ہیں۔یعنی سادات خاندان سیّد گوہر علی شاہ کے پوتوں میں سے ہیں جبکہ والد گرامی سیّد گوہر علی شاہ کے نواسوں میں سے ہیں اور دادا مُغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن سے ہی آپ کا رُخ اولیاء اکرام کے درباروں کی طرف تھا۔آپ کے والد گرامی فرماتے ہیں کہ گوہر شاہی پانچ یا چھ سال کی عمر سے ہی غائب ہوجاتے اور ہم جب اُنکو ڈھونڈنے نکلتے تو اِن کو نظام الدینؒ اولیاء(نئی دہلی) کے مزار پر بیٹھا ہوا پاتے۔مجھے کئی دفعہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ نظام الدین اولیاء سے باتیں کر رہے ہیں۔یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت گوہر شاہی کے والد گرامی ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے۔مارچ1997 میں جب گوہر شاہی انڈیا تشریف لے گئے تو نظام الدینؒ اولیاء دربار کے سجادہ نشین اسلام الدین نظامی نے نظام الدین اولیاء کے اشارے پر اِن کو دربار کے سرہانے دستار پہنائی تھی۔
بچپن سے ہی جو بات کہتے وہ پوری ہوجاتی، اس وجہ سے میں ان کی ہر جائز ضد کو پورا کرتا۔آپ کے والد گرامی مزید فرماتے ہیں کہ:’’گوہر شاہی حسب ِمعمول روزانہ صبح لان {Lawn} میں آتے ہیں تو میں اِن کی آمد پر احترام میں کھڑا ہوجاتا ہوں‘‘۔اس بات پر گوہر شاہی مجھ سے ناراض ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، مجھے شرم آتی ہے آپ اِس طرح نہ کھڑے ہوا کریں۔لیکن میرا بار بار یہی جواب ہوتا ہے کہ میں آپ کیلئے نہیں بلکہ جو اللہ آپ میں بس رہا ہے اُس کے احترام میں کھڑا ہوتا ہوں۔موڑہ نوری پرائمری اسکول کے ماسٹر امیر حسین کہتے ہیں:’’ میں علاقے میں بہت سخت اُستاد مشہور تھا، شرارتی بچوں کو مارتا اور اِنکی شرارت یہ تھی کہ یہ اسکول دیر سے آتے تھے اور جب میں غصّے میں اِنہیں مارنے لگتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی نے میرا ڈنڈا پکڑ لیا ہو اور اِسطرح مجھے ہنسی آجاتی تھی۔
حضرت گوہر شاہی کی برادری اور دوستوں کے تاثرات:
ہم نے کبھی اِن کو کسی سے لڑتے جھگڑتے یا کسی کو مارتے پیٹتے نہیں دیکھا بلکہ کوئی دوست اگرغصّہ کرتا یا اِن کو مارنے کیلئے آتا تو یہ ہنس پڑتے۔
حضرت گوہر شاہی کی زوجہ محترمہ کہتی ہیں:
اوّل تو اِن کو غصّہ آتا ہی نہیں اور اگر کبھی غصّہ آتا ہے تو اِنتہائی شدید ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بیہودہ بات پر۔حضرت گوہر شاہی کی سخاوت کے بارے میں کہتی ہیں:’’صبح جب اپنے کمرے سے لان تک جاتے ہیں تو جیب بھری ہوتی ہے اور مڑ کر واپس آتے ہیں تو جیب خالی ہوجاتی ہے۔ سارا پیسہ ضرورتمندوں کو دے آتے ہیں اور پھر جب مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو منہ بنا لیتے ہیں اور اسطرح مجھے غصّہ آتا ہے۔پھر معصومانہ چہرہ دیکھ کر شعر پڑھتی ہیں۔
؎ دِل کے بڑے سخی ہیں…بیٹھے ہیں دھن لُٹا کے
حضرت گوہر شاہی کے صاحبزادوں کے اِنکے بارے میں تاثرات:
ابّو ہم سے پیار بھی بہت کرتے ہیں اور خیال بھی بہت رکھتے ہیں لیکن جب ہم اِن سے پیسے مانگتے ہیں تو وہ بہت کم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:’’تم فضول خرچی کرو گے‘‘، تب ہم کہتے ہیں کہ:’’یا تو ہمیں بھی فقیر بنا دو یا ہمیں پیسے دو‘‘۔
حضرت گوہر شاہی کی والدہ ماجدہ کے اِن کے بارے میں تاثرات:
بچپن میں کبھی اسکول نہ جاتا یا جوانی میں دورانِ کاروبار کبھی نقصان ہوجاتا تو میں اِس کی سرزنش کرتی لیکن اُنہوں نے کبھی بھی مجھے سر اُٹھا کر جواب نہیں دیا جبکہ میرے بزرگ ککہ میاں ڈھوک شمس والے کہا کرتے تھے کہ:’’ریاض کو گالی مت دیا کر جو کچھ میں اس میں دیکھتا ہوں تمہیں خبر نہیں‘‘۔ انسانی ہمدردی اتنی کہ اگر’ ریاض‘ کو پتہ چل جاتا کہ آٹھ دس میل کے فاصلے پر کوئی بس خراب ہوگئی ہے تو اُن لوگوں کیلئے کھانا بنوا کر سائیکل پر اُنہیں دینے جاتا۔
حضرت گوہر شاہی کے ایک قریبی دوست محمد اقبال مقیم فضولیاں:
محمد اقبال کہتے ہیں کہ برسات کے موسم میں کبھی کبھی جب کھیتوں کی پگڈنڈی سے گزر ہوتا تو بے شمار چیونٹے قطار در قطار اُس پگڈنڈی پر چل رہے ہوتے۔ہم لوگ پگڈنڈی پر چل پڑتے اور چیونٹوں کا خیال نہیں کرتے لیکن یہ پگڈنڈی سے پرے ہٹ کر کیچڑ میں چلتے تاکہ چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو۔جب اِن پر قتل کا جھوٹا کیس بنایا گیا تو کرائم برانچ کے قدوس شیخ انکوائری کیلئے آئے، مُحلّے والوں نے اُنہیں بتایا کہ ہماری نظر میں تو گوہر شاہی نے کبھی مچھر بھی نہیں مارا ہوگا، کہاں ایک انسان کا قتل!
حضرت گوہر شاہی اوران کی ممانی:
یہ ان دِنوں کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ایک دفعہ ممانی(جو کہ زاہد و پارسا اور عبادت گزار تھیں لیکن حرص اور حسد میں بھی مبتلا تھیں جو کہ اکثر عبادت گزاروں میں ہوتا ہے) نے کہا کہ تجھ میں اور سب تو ٹھیک ہے لیکن تو نماز نہیں پڑھتا۔ میں نے جواب دیا:کہ نماز رب کا تحفہ ہے میں نہیں چاہتا کہ نماز کے ساتھ ساتھ بخل، تکبر، حسد، کینہ کی ملاوٹ رب کے پاس بھیجوں جب کبھی بھی نماز پڑھوں گا تو صحیح نماز پڑھوں گا، تم لوگوں کی طرح نہیں کہ نماز بھی پڑھتے ہو اور غیبت، چغلی، بُہتان جیسے کبیرہ گناہ بھی کرتے ہو۔
حضرت گوہر شاہی اپنے بچپن کے حالات بیان فرماتے ہیں:
دس بارہ سال کی عمر سے ہی خواب میں رب سے باتیں ہوتی تھیں اور بیت المعمور نظر آتا تھا لیکن مجھے اس کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔چلہ کشی کے بعد جب وہی باتیں اور وہی مناظر سامنے آئے تو حقیقت آشکار ہوئی ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرا ایک ماموں جو کہ فوج میں ملازم تھا وہ طوائفوں کے کوٹھوں پر جایا کرتا تھا، گھر والوں کے منع کرنے کی وجہ سے وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتا تاکہ گھر والوں کو شک نہ گزرے۔ مجھے چائے اور بسکٹ کھانے کو دیتا اور خود اندر چلا جاتا، جبکہ مجھے طوائفوں اور کوٹھوں کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ ماموں مجھ سے یہی کہتا کہ یہ عورتوں کا آفس ہے۔کچھ دنوں بعد میرا دل اِس جگہ سے اُچاٹ ہو گیا۔ تب ماموں نے کہا کہ یہ عورتیں ہیں اور اللہ نے ان کو اِسی مقصد کے لئے بنایا ہے۔ یعنی اس نے مجھے بھی ملوث کرنے کی کوشش کی۔ ماموں کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ نفس کی کشمکش میں رات بھر نہ سو سکااور پھر اچانک آنکھ لگ گئی۔ دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا گول چبوترا ہے اور میں اُس کے نیچے کھڑا ہوں، اوپر سے کرخت قسم کی آواز آتی ہے:’’اس کو لائو‘‘، دیکھتا ہوں کہ ماموں کو دو آدمی پکڑ کر لا رہے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہے۔ پھر آواز آتی ہے کہ:’’اس کو گُرزوں سے مارو‘‘ ، تب اس کو مارتے ہیں۔ تو وہ چیخیں مارتا اور دھاڑتا ہے اور چیختے چیختے اس کی شکل سور کی طرح بن جاتی ہے ۔پھر آواز آتی ہے کہ :’’ تو بھی اس کے ساتھ اگر شامل ہوا تو تیرا بھی یہی حال ہو گا‘‘۔ پھر میں توبہ توبہ کرتا ہوں اور آنکھ کھلتی ہے تو زبان پر یہی ہوتا ہے کہ: ’’ یا رب میری توبہ، یا رب میری توبہ‘‘ اور کئی سال تک اس خواب کا اثر رہا۔
اس کے دوسرے دن میں گائوں کی طرف جا رہا تھا، بس میں سوار تھا راستے میں دیکھا کچھ ڈاکو ایک ٹیکسی سے ٹیپ ریکارڈر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈرائیور نے مزاحمت کی تو اس پر چھریوں سے وار کر کے قتل کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر ہماری بس وہاں رک گئی اور وہ ڈاکو ہمیں دیکھ کر فرار ہو گئے اور ڈرائیور نے تڑپ کر ہمارے سامنے جان دے دی، پھر ذہن میں یہی آیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ، رات کو سونے لگاتو اندر سے یہ شعر گونجناشروع ہو گئے،
؎ کر ساری خطائیں معاف میری … تیرے در پہ میں آن گرا
اور ساری رات گریہ زاری میں گزری، اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد میں دنیا چھوڑ کرجام داتارؒ کے دربار پر چلا گیا، لیکن وہاں سے بھی کوئی منزل نہ ملی اور میرا بہنوئی مجھے وہاں سے واپس دنیا میں لے آیا۔ 34سال کی عمر میں بری امامؒ سامنے آئے اور کہاکہ :’’ اب تیرا وقت ہے دوبارہ جنگل جانے کا‘‘۔ تین سال چلہ کشی کے بعدجب کچھ حاصل ہوا تودوبارہ جام داتار کے دربار گیا صاحب ِمزار سامنے آگئے ، میں نے کہا:’’ اُس وقت اگر مجھے قبول کر لیا جاتا تو بیچ میں نفسانی زندگی سے محفوظ رہتا‘‘۔ انہوں نے جواب دیا: ’’ اُس وقت تمہارا وقت نہیں تھا‘‘۔