Skip to content

فرموداتِ گوہر شاہی

’’ اگر کوئی ساری عمر عبادت کرتا رہے، لیکن آخر میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی مخالفت کر بیٹھا جن کو دنیا میں دوبارہ آنا ہے(عیسیٰ کا جسم سمیت اور مہدی کا ارضی ارواح کے ذریعے آنا ہے) تو وہ بلیعم باعورکی طرح دوزخی اور ابلیس کی طرح مردود ہے۔ اگر کوئی ساری عمر کتوں جیسی زندگی بسر کرتا رہا لیکن آخر میں اُنکا ساتھ اور اُن سے محبت کر بیٹھا تو وہ کتے سے حضرت قطمیر بن کر جنت میں جائیگا۔ ‘‘

’’ کچھ فرقے اور مذاہب کہتے ہیں کہ عیسیٰ فوت ہوگئے۔ افغانستان میں اُنکا مزار ہے۔یہ غلط پروپیگنڈا ہے۔ افغانستان میں کسی اور عیسیٰ نامی بزرگ کا دربار ہے۔اُس پیادہ زمانے میں مہینوں کی مسافت پر جاکردفنانا کیا مقصد رکھتا تھا؟پھر وہ کہتے ہیں: ’’آسمان پر کیسے اُٹھائے گئے؟ ‘‘ ہم کہتے ہیں آدم علیہ السلام آسمان سے کیسے لائے گئے؟جبکہ ادریسؑ بھی ظاہری جسم سے بہشت میں اب تک موجود ہیں خضرؑ اور الیاس جو دنیا میں ہیں اُنکو بھی ابھی تک موت نہیں آئی۔ غوث پاک کے پوتے حیات الامیر چھ سو (۶۰۰) سال سے زندہ ہیں۔غوث پاک نے کہا تھا:’’ اُس وقت تک نہیں مرنا جب تک میرا سلام مہدی علیہ السلام کو نہ پہنچا دو‘‘۔ شاہ لطیف کو بری امام کا لقب اُنہوں نے ہی دیا تھا۔مری کی طرف بارہ کوہ میں اُنکی بیٹھک کے نشان ابھی تک محفوظ ہیں۔‘‘

’’ظاہری گناہ کی سزا جیل، جرمانہ یا ایک دن کی پھانسی ہے۔ اگر کوئی راہ ِفقر میں ہے تو اُس کی سزا ملامت ہے۔جبکہ باطنی گناہوں کی سزا بہت زیادہ ہے۔غیبت کرنے والے کی نیکیوں سے جرمانہ فریق ِدوئم کی نیکیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔حرص، حسد، بخل اور تکبر اُس کی لکھی ہوئی نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں۔ اگر اُس میں کچھ نور ہے تو انبیاء و اولیاء کی گستاخی اور بغض سے چھِن جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ صنعان کا شیخ عبدالقادر جیلانی کی گستاخی سے کشف و کرامات کا سلب ہوجانا۔‘‘


واقعہ ہے کہ جب بایزید بسطامی کو پتہ چلا کہ ایک شخص اُنکی برائی کرتا ہے تو آپ نے اُس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ وہ وظیفہ بھی لیتا رہا اور برائی بھی کرتا رہا۔ایک دِن اُسکی بیوی نے کہا:’’ نمک حرامی چھوڑ یا وظیفہ چھوڑ یا برائی چھوڑ۔‘‘ پھر اُس نے تعریف کرنا شروع کردی۔آپ کو جب تعریف کا پتہ چلا تو اُس کا وظیفہ بند کردیا۔پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جب برائی کرتا تھا، وظیفہ ملتا تھا، اب تعریف کی وجہ سے وظیفہ کیوں بند ہوا؟آپ نے فرمایا:’’تو اُس وقت میرا مزدور تھا، تیری برائی سے میرے گناہ جلتے، میں اُس کا تجھے معاوضہ دیتا تھا۔اب کِس چیز کا معاوضہ دوں؟ ‘‘ مندرجہ برائیوں کا تعلق نفس امارہ سے ہے، جس کا امدادی ابلیس ہے۔جبکہ تقویٰ، سخاوت، درگزر، صبر و شکر، عاجزی اور انوار ِالٰہی کا تعلق قلب ِشہید سے ہے، جس کا امدادی ولی مرشد ہے۔


جب تک نفس امارہ ہے کسی بھی پاک کلام کے انوار دِل میں ٹھہر نہیں سکتے بے شک الفاظ و آیات کا حافظ کیوں نہ بن جائے، طوطا ہی ہے۔ جب تیرا نفس مطمئنہ ہوجائے گا پھر ناپاک چیز تیرے اندر ٹھہر نہیں سکتی، پھر تُو مرغ ِبسمل ہے۔نفس پاک کرنے کیلئے کسی نفس شکن کو تلاش کر۔جو ہر وقت منجانب اللہ ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔جسم کے باہر کی طہارت پانی سے ہوتی ہے جبکہ جسم کے اندر کی طہارت نور سے ہوتی ہے۔ طہارت کے بغیر گندہ اور ناپاک ہے۔ صاف جسم عبادت ِالٰہی کے قابل ہوتا ہے، جبکہ صاف دِل تجلیاتِ الٰہی کے قابل ہوتا ہے۔ پھر ہی آسمانی کتابیں ہدایت کرتی ہیں پاکوں کو(ہدی اللمتقین) ورنہ کتابوں والے ہی کتابوں والوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔مجدد الف ثانی مکتوبات میں لکھتے ہیں:’’قرآن اُن لوگوں کے پڑھنے کے لائق نہیں جن کے نفس امارہ ہیں۔مبتدی کو چاہیے کہ پہلے ذکر اللہ کرے یعنی اندر کو پاک کرے، منتہی کو چاہیے کہ پھر قرآن پڑھے۔‘‘

حدیث:کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔

؎بلھے شاہ: کھا کے سارا مکر گئے جنھاں دے بغل وچ قرآن

عابد کو گمان ہے کہ وہ اللہ کیلئے عبادت اور شب بیداری کررہا ہے اسلئے وہ اللہ کے نزدیک ہے۔ عبادت کے بعد تیری دُعا، صحت، عمر درازی، مال و دولت اور حور و قصور ہے۔ سوچ! کیا تُو نے کبھی بھی یہ دُعا مانگی تھی،اے اللہ مجھے کچھ نہیں چاہیے صرف تُو چاہیے؟


عالم کو گمان ہے کہ میں قرب ِ خدا وندی میں بخشا بخشا یا ہوا ہوں۔ کیونکہ میرے اندر علم اور قرآن ہے پھر تو دوسروں کو جہنمی کیوں کہتا ہے جبکہ ہر مسلم کو بھی کچھ نہ کچھ علم اور قرآن کی بہت سی سورتیں یاد ہیں۔سوچ! علم کون بیچتا ہے؟ خود کون بکتا ہے؟ولیوں کی غیبت کون کرتا ہے؟حاسد، متکبراور بخیل کون ہوتا ہے؟دِل میں اور، زبان میں اور، صبح اور ، شام کو اور، یہ کس کا وطیرہ ہے؟ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر کون پیش کرتا ہے؟اگر تُو ان سے دور ہے تو خلیفۂ رسول ہے! تیری طرف پشت کرنا بھی بے ادبی ہے۔

یعنی۔۔۔۔قاری نظرآتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

اگر تُو ان خصلتوں میں گم ہے تو پھر تُو وہی ہے جس کیلئے بھیڑیے نے کہا تھا کہ اگر میں نے یوسف کو کھایا ہو تو اللہ مجھے چودھویں صدی کے عالموں سے اُٹھائے۔

Copyright © 2025 Mehdi Foundation International