گوہرشاہی کا عقیدہ
سب مذاہب کے نیکوں کاروں اور عابدوں کو ایک لائن میں کھڑا کردیا جائے، رب کو کہو: کس کو دیکھے گا؟
جس طرح تیری نظر چمکتے ہوئے ستاروں پر پڑتی ہے۔ وہ مریخ ہو یا عطارد یا بے نام ستارہ،
اِسی طرح رب بھی چمکتے ہوئے دِلوں کو دیکھتا ہے وہ مذہب والے ہوں یا بے مذہب!
بِن عشق ِ دلبر کے سچل ،کیا کفر ہے، کیا اسلام ہے!
تم رب کی تلاش میں مندروں چرچوں اور مسجدوں وغیرہ کی دوڑ لگاتے ہو! کیا تاریخ میں کوئی ثبوت ہے، کہ رب کو کسی نے بھی کسی بھی عبادتگاہ میں بیٹھا ہوا دیکھا ہو؟ ارے نادان! رب کا مسکن تیرا دِل ہے، اس کو دِل میں بسا، پھر دیکھ یہ عبادت گاہیں اور اِن میں عبادت کرنے والے تیری طرف دوڑ لگائیں گے۔بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:’’ ایک عرصہ کعبہ کا طواف کرتا رہا، جب رب میرے اندر آیا، تو ایک عرصے سے کعبہ میرا طواف کر رہا ہے‘‘۔یہ عبادت گاہیں ثواب گاہیں ہیں جبکہ یہ دِل آماجگاہ ہے۔عبادت گاہوں میں تُو پکارے گا اور رب دِلوں میں پکارے گا۔
عقل والوں کے نصیبے میں کہاں ذوقِ جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لُٹا دیتے ہیں
اللہ اللہ کئے جانے سے اللہ نہ ملے
اللہ والے ہیں جو اللہ ملا دیتے ہیں
ہر مذہب کا عقیدہ ہے کہ اُس کے نبی کی شان سب سے بلند ہے اور یہی عقیدہ اہل کتاب میں جنگوں کا سبب بنا،بہتر ہے تم روحانیت کے ذریعے نبیوں کی محفل میں پہنچ جاؤ پھر ہی پتہ چلے گا کہ کون کس مقام پر ہے اور کون کس درجہ پر ہے۔
ضروری نوٹ
ہر نبی کو اللہ نے خاص ناموں سے پکارا جو اُنکی امت کیلئے پہچان اور کلمے بن گئے۔یہ نام اللہ کی اپنی زبان سریانی میں تھے۔ اِنکے اقرار سے اُس نبی کی امت میں داخل ہوتا ہے۔ تین دفعہ اقرار شرط ہے، امت میں دا خل ہونے کے بعد ان الفاظوں کو جتنا بھی دُہرائے گا اُتنا ہی پاکیزہ ہوتا جائیگا۔ مصیبت کے وقت ان الفاظوں کی ادائیگی مصیبت سے چھٹکارا بن جاتی ہے۔ قبر میں بھی یہ الفاظ حساب کتاب میں کمی کا باعث بن جاتے ہیں حتیٰ کہ بہشت میں داخلے کیلئے بھی ان الفاظ کی ادائیگی شرط ہے۔ ہر امت کو چاہیے کہ اپنے نبی کے کلمے کو یاد کریں اور صبح و شام جتنا بھی ہوسکے اُن کو پڑہیں ۔ ھدایت کیلئے آسمانی کتابیں آپ اپنی زبان میں پڑھ سکتے ہیں لیکن عبادت کیلئے اصلی کتاب کی اصلی عبارتیں زیادہ فیض پہنچاتی ہیں۔