بہشت کن لوگوں کے لئے ہے
کچھ ازلی جہنمی بھی اعمال و عبادات کے ذریعے بہشتی بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آخر میں شیطان کی طرح مردود ہوجاتے ہیں، کیونکہ بخل، تکبر، حسد اِن کی وراثت ہے۔
حدیث: جس میں ذرہ بھر بھی بُخل اور حسد تکبر ہے وہ جنت میں نہیں جاسکتا۔
بہشتی لوگ اگر عبادات میں نہ بھی ہوں تو پہچانے جاتے ہیں، یہ لوگ دِل کے نرم اور صاف، اور حرص و حسد سے پاک اور سخی ہوتے ہیں اگر عبادات میں لگ جائیں تو بہت اونچا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اِن ہی کی بخشش کے بہانے بناتا ہے اور کچھ لوگ درمیان والے ہوتے ہیں اِن کا نیکی بدی کا پروانہ چلتا ہے۔اور کچھ اللہ کے خواص ہوتے ہیں۔ان ہی روحوں نے ازل میں اللہ سے محبت کری تھی۔ اِنہیں جنت دوزخ سے مقصد نہیں بلکہ اللہ کے عشق میں تن من دھن لُٹا دیتے ہیں۔ اللہ کے ذکر اور رحمت سے اپنی روحوں کو چمکا لیتے ہیں، دیدار الٰہی بھی حاصل کرلیتے ہیں، جنت الفردوس صرف اِن ہی روحوں کیلئے مخصوص ہے۔ اور اِن ہی کیلئے حدیث ہے کہ: کچھ لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔
"تشریح"
جن کو دنیا کا نظارہ دِکھایا ’’ دنیا اِن کے‘‘مقدر میں لکھ دی۔ اِنہوں نے نیچے دنیا میں آکر دنیا حاصل کرنے کیلئے جان کی بازی لگا دی۔ چوری، ڈاکہ، رشوت، سود جیسے جرائم کو بھی نظر انداز کردیا حتیٰ کہ وحدانیت کا بھی انکار کر دیا۔اِن میں سے کچھ روحیں تھیں جنہوں نے جنت حاصل کرنے کیلئے مذہب یا عبادت بھی اختیار کی لیکن عزازیل کی طرح بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ کوئی گستاخ، یا اللہ کا ناپسند مذہب یا فرقہ اِن کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ دوسری ارواح جنہوں نے بہشت طلب کری تھی اُنہوں نے دنیاوی کاموں کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت کو اوّ لیں ترجیح دی، حور و قصور کی لالچ میں عبادت گاہوں کی طرف دوڑ لگائی اور جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن اِن میں سے کچھ لوگ عبادت میں سُست رہے چونکہ جنت اِن کی قسمت میں تھی اس لئے کوئی بہانہ اِن کے کام آگیا لیکن وہ جنت کا وہ مقام حاصل نہ کرسکے جو نیکو کاروں نے حاصل کیا۔اِنہی کیلئے اللہ نے فرمایا:’’ کیا اِن لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، ہم ان کو نیکو کاروں کے برابر کردینگے! ‘‘ کیونکہ جنت کے سات (۷) درجے ہیں۔عام لوگوں کو ہدایت نبیوں، کتابوں، گروؤں، ولیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ انہیں اس مذہب میں داخلہ اور کلمہ ضروری ہے۔اور خواص بغیر مذہب اوربغیر کتب کے بھی اللہ کی نظر ِ رحمت میں آجاتے ہیں یعنی اِن کو ہدایت نور سے ہوتی ہے۔
اللہ جنہیں چاہتاہے نور سے ہدایت دیتا ہے ۔ القرآن
کہتے ہیں کہ بہشت میں داخلے کیلئے کلمہ ضروری ہے، بہشت میں اِن جسموں کو نہیں روحوں کو جانا ہے اور داخلے کے وقت پڑھنا ہے تو پھر یہ روحیں مقا م ِ دید میں جاکر کسی بھی وقت کلمہ پڑھ لیں گی مرنے کے بعد ہی سہی جیسے حضور پاک کی والدہ اور والد اور چچا کی روحوں کو مرنے کے بعد ہی کلمہ پڑھایا گیا تھا۔بلکہ خواص الخاص روحیں اوپر سے ہی کلمہ پڑھ کریعنی اقرار تصدیق کرکے ہی آتی ہیں۔حضور پاک نے فرمایا تھا کہ’’ میں دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی تھا‘‘ یہ الفاظ روح کے ہی روحوں کیلئے ہوسکتے ہیں جسم تو اس دنیا میں ملا۔ قومیں ہوں تب سردار ہوتے ہیں! امتی ہوں تب نبی ہوتے ہیں، ورنہ ان کا کیا کام؟ پھر اِن ہی لوگوں کو مختلف مذاہب میں بھیجا جاتا ہے، کوئی بابا فرید کے روپ میں اور کوئی گرو نانک کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔اللہ کو پانے والی روحیں مذہب نہیں دیکھتیں بلکہ جس کی اللہ سے رسائی دیکھتی ہیں اُس کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔غوث علی شاہ جو ایک ولی ہو گزرے ہیں تذکرۂ غوثیہ میں لکھا ہے کہ میں نے ہندو جوگیوں سے بھی فیض حاصل کیا ہے۔ یہ رمز نہ سمجھ کر مسلم علماء نے غوث علی شاہ پر واجب القتل کے فتوے لگائے اور مسلمانوں کو کہا کہ : جس کے بھی گھر میں یہ کتاب ہو اُسے جلا دیا جائے، لیکن وہ کتاب بچ بچا کر ابھی بھی ہندوستان، پاکستان میں موجود اور مقبول ہے۔
کچھ قوموں نے نبیوں کو تسلیم کیا اور کچھ نے نبیوں کو جھٹلایا۔جھٹلانے والی قوموں میں بھی رب نے اِن ہی کے مذہب کے مطابق ان لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے ان کو گناہوں سے بچانے کی تعلیم دی اور ان ہی کی عبادت اور رسموں و رواج کے ذریعے ان کا رُخ رب کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔امن اور رب کی محبت کا سبق دیا۔اگر یہ لوگ نہ ہوتے توآج ہر مذہب ایک دوسرے کیلئے خونخوار ہی بن جاتا، ا یسی روحوں کو دنیا میں خضر( وشنو مہاراج) سے بھی راہمنائی ملتی ہے جو ہر مذہب کا بھید جانتے ہیں۔