فرموداتِ گوہر شاہی
’’تین حصے علمِ ظاہر کے ہیں، اور ایک حصّہ علمِ باطن کا ہے۔
ظاہری علم حاصل کرنے کیلئے کسی موسیٰ اور باطنی علم کیلئے کسی خضر کو تلاش کرنا پڑتا ہے‘‘۔
’’ جبرائیل کے بغیر جو آواز آئی، اُسے الہام اور جو علم آیا اُسے صحیفے اور حدیث قدسی کہتے ہیں
اور جبرائیل کے ساتھ جو علم آیا اُسے قرآن کہتے ہیں خواہ وہ ظاہری علم ہو یا باطنی علم ہو! اُسے توریت کہیں، زبور کہیں یا انجیل کہیں‘‘
’’علماء سے اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اُسے سیاست کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں
۔اولیاء سے کوئی غلطی ہوجائے، اُسے حکمت سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
جبکہ نبیوں پر غلطی کا دفعہ نہیں لگتا ‘‘
’’جو جس شغل میں ہیں، اندر سے اُنکی متعلقہ روحیں طاقتور ہیں۔اور جو کسی بھی شغل میں نہیں ہیں، اُنکی روحیں خفتہ اور بے حس ہیں۔اور جنہوں نے کسی بھی طریقے سے اللہ کا نام ان روحوں میں بسا لیا پھر اُنکا شغل ہمہ وقت ذکر سلطانی اور عشق خداوندی ہے‘‘
؎تب ہی علامہ اقبال نے کہا:’’اگر ہو عشق تو کفر بھی ہے مسلمانی‘‘
؎سچل سائیں نے کہا:’’بن عشق ِدلبر کے سچل، کیا کفر ہے کیا اسلام ہے‘‘
؎سلطان باہو نے کہا:’’جتھے عشق پہنچاوے، ایمان نوں وی خبر نہ کائی ‘‘
ایسے لوگ جب کسی مذہب میں ہوتے ہیں یا جاتے ہیں تو اُن کی برکت سے اُس خطے پر اللہ کی باران ِ رحمت برسنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ بابا فرید ہوں تو ہندؤ، سکھ بھی اُنکی چوکھٹ پر!اگربابا گرو نانک ہوں تو مسلم، عیسائی بھی اُنکے در پر چلے آتے ہیں‘‘۔