Skip to content

’’نوٹ‘‘

حضرت گوہر شاہی کے شاعرانہ کلام پر مبنی منظوم تصنیف ’’ تریاق قلب ‘‘ سے چند خاص اشعار ملاحظہ کیجئے۔ یہ کچھ الہامی اور کچھ عشقیہ کلام آپ نے دورانِ ریاضت و مجاہدہ تحریر فرمائے۔

’’تریاقِ قلب ‘‘

کہاں تیری ثناء کہاں یہ گناہ گار بندہ
کہاں لاہوت و لا مکاں کہاں یہ عیب دار بندہ
نور سراپا ہے تُو، مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرأت بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ
مگر عشق تیرا دن رات ستائے، پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رُلائے پھر میں کیا کروں
پاک ہے ذات تیری، مگر یہ بے اشنان بندہ
بادشاہ ہے تُو زمانے کا، مگر یہ بے نشان بندہ
مالک ہے تُو خزانے کا، مگر یہ بے سر و سامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ


نہیں ہوں سوالی، فقیری میرا دھندہ نہیں ہے
دنیا والو! عشق خدا ہے، عشق بندہ نہیں ہے
عرصہ سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی، آہو یا پرندہ نہیں ہے
پڑے ہیں ٹیلوں پہ، یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا، یہی ہے قائدہِ فقرائی
نیند گئی لُقمہ بھی گیا، یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوہر شاہی


آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہباز کی چلہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی، یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے
وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر انکی بھی نگاہ ہے
شہباز کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رُلائے پھر میں کیا کروں!


ہو گئے قیدی ہم جبلوں کے اک دلدار کی خاطر
پی رہے ہیں خونِ جگر، ان دیکھے دربار کی خاطر
سولی پہ لٹکے گئے عشق کی تار کی خاطر
جان بھی نہ نکلے اک تیرے دیدار کی خاطر


پہن کر چوغے و کلاوے فقیر بن گئے تو کیا
پڑھ کر کتابیں تصوف کی، پیر بن گئے تو کیا
کر کے یاد حدیث فقہ ملاّ بے تقدیر بن گئے تو کیا
عمل نہ کیا کچھ بھی فرعون بے تقصیر بن گئے تو کیا


رکھ کے داڑھی عیب چھپایا تو کیا مزہ
رگڑ کر ماتھا، مُّلا کہلایا تو کیا مزہ
کھا کے زہر گر پچھتایا تو کیا مزہ
لٹا کے جوانی خدا یاد آیا تو کیا مزہ


فاذکرونی اذکرکم، پھر تجھے اور تمنا کیا
تب ہی پوچھے گا خدا اے بندے تیری رضا کیاہے
اے بندے سمجھ، کیوں ہوا دنیا میں ظہور تیرا!
تو وہ عظیم تر ہے، خدا بھی ہوا مذکور تیرا
عش عش کرتے کرّ و بیاں، دیکھتے جب شکستہ صدور تیرا
فخر ہوتا ہے اللہ کو، بنتا ہے جب جسم سراپا نور تیرا
کہتے ہیں پھر اللہ، اے ملائکو میرے بندے کی شان دیکھو
ہوا تھا جس پہ انکارِ سجدہ، اب اُسکا ایمان دیکھو
جنبش پہ ہے جسکا دل، ایک سرا ادھر ایک لامکاں دیکھو
ناز ہے تم کو بھی عبادت کا، مگر عبادت قلبِ انسان دیکھو


بنایا پھر بسیرا پہاڑوں میں اور تلاشِ یار ہوئے
بہت ہی مغلوب تھے ہم، جو آج شکنِ حصار ہوئے
کرلے جب بھی توبہ، وہ منظور ہوتی ہے
بندہ بشر ہے، جس سے غلطی ضرور ہوتی ہے
کہتے ہیں موسیٰ، اللہ کو وہی عبادت محبوب ہوتی ہے
جس میں گنہگاروں کی گریہ زاری خوب ہوتی ہے


قُفلوں والے کریں گے کیسے یقین ہم پر
کہ ہوچکا ہے اتنا مہربان، رب العالمین ہم پر
کھول چکا ہے اسرار حور و نازنین ہم پر
کہ بس رہا ہے جسۂ توفیقِ الٰہی زمین ہم پر


یہ راز چھپا کر کریں گے کیا، اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا، عنقریب آنی ہے
دجال و رجال پیدا ہوچکے یہ بھی اک نشانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدی بھی، یہی رازِ سلطانی ہے


نماز بھی پڑھا دی مولانا نے، قرآن پڑھنا بھی سکھا دیا
کلمے بھی پڑھائے، حدیثیں بھی، بہت کچھ مغز میں بٹھا دیا
بتا نہ سکا دِل کا راستہ، باقی سب کچھ پڑھا دیں
یہی اک خامی تھی، ابلیس نے سب کچھ جلا دیا


پوچھا موسیٰ نے اللہ سے تجھے کوئی پائے تو پائے کہاں
میں آتا ہوں کوہِ طور پر وہ جائے تو جائے کہاں
گر ہو کوئی مشرق میں پیدا، تو وہ طور بنائے کہاں
آئی آواز ہوں ذاکر کے قلب میں، زمیں پہ ہو یا آسماں


ملا تھا قطرہ نور کا کر کے ترقی لہر بن گیا
آئی طغیانی ٹکرایا بحر سے اور بحر بن گیا
نہ رہی تمیز من و تن کی دل تھا دہر بن گیا
بس گیا علم اس پہ اتنا کہ اک شہر بن گیا
اس نقطہ کی تلاش میں کتنے سکندر عمریں گنوا بیٹھے
خوش نصیبی میں تیری شک کیا، گھر بیٹھے ہی یہ راز پا بیٹھے


سورج چڑھا تو نکلا پیٹ کے جنجال میں
گھر آیا تو پھنسا بیوی کے جال میں
سویا تو وہ بھی بچوں کے خیال میں
عمر یوں ہی پہنچ گئی ستر سال میں
ہوا جب کام سے نکمہ، لیا دین کا آسرا
اب کہاں ہے خریدار، بیٹھا جو حسن لُٹا
بیشک کر ناز نخرے، اور زلفوں کو سجا
وقت تھا جو تیرا، وہ تو بیٹھا گنوا
کر کے ذکر چار دن بن گیا زنجہانی ہے
دھوکہ ہے تیری عقل کا، جو ہوگئی پرانی ہے
اب کچھ توقع اللہ سے، یہ تیری نادانی ہے
قابل تُو نہیں، گر بخش دے اُس کی مہربانی ہے
ڈوبنے لگا فرعون وہ بھی ایمان لے آیا تھا
کر کے دعوی ٰ خدائی وہ بھی پَچھتایا تھا
کر لی توبہ آخر میں، وہ وقت ہاتھ نہ آیا تھا
جس وقت کا قدرت نے بندے سے وعدہ فرمایا تھا


یہ تو وہ عمل ہے عاصیوں کو بھی مجیب مل جاتے ہیں
ہوتے ہیں جو بے نصیب، اُنہیں بھی نصیب مل جاتے ہیں
نہیں ہے فرق خواندہ ناخواندگی کا کہ خطیب مل جاتے ہیں
ڈھونڈتی ہے دنیا جنکو ستاروں میں قریب مل جاتے ہیں
پارس بھی اسی میں کیمیاء بھی اسی میں
وفا بھی، حیا بھی شفا بھی اسی میں
رضا بھی بقا بھی لقا بھی اسی میں
خدا کی قسم ! ذاتِ خدا بھی اسی میں


پڑا ہے بُت اِدھر، لٹکی ہوئی ہے جان اُدھر
دے رہے ہیں سجدے اِدھر، وہم و گمان اُدھر
لکھتے ہیں سیاہی سے پڑتا ہے لہو کا نشان اُدھر
بود باش اِس جنگل میں، زندگی کا سامان اُدھر
ٹپکے آنکھوں سے آنسو دو چار، بن گئے درّ تاباں اُدھر
پھڑکا جب دِل کبوتر کی طرح، ہوگئے فرشتے حیران اُدھر
آگئے رشک میں، کاش ہم بھی ہوتے انسان اُدھر
یہ تو وہی خستہ حال تھا، جو ہوگیا سینہ تان اُدھر
کہا بُت کو کہ چل اس دنیا سے کہ بن گیا مکان اُدھر
یہ تو ایک دھوکہ تھا، پڑا ہے جو بے سرو سامان اُدھر


نہ کر شبہ، چور بھی اوتاد و اخیار بن بیٹھے
آئے پارس کے ہاتھوں، خود ہی سرکار بن بیٹھے
مارا نفس کو اور حق کے خریدار بن بیٹھے
حق نے لیا گر، سوکھے کانٹے بھی گلزارؔ بن بیٹھے


اس زندگی سے گئے پایا جب سراغِ زندگی
پایا پھر وسیلہِ ظفر، مٹایا جب داغِ زندگی
نکلے پھر دنیا کے اندھیرے سے، جلایا جب چراغِ زندگی
دھویا آنسوئوں سے قلب کو بسایا جب باغِ زندگی
نکلا اُس چمن سے طائر لاہوتی، اور کیا نباضِ زندگی
ہوئے جب قبر و گھر یکساں اور کیا فیاضِ زندگی
زندگی میں ہی دیکھا یومِ محشر اور کیا بیاضِ زندگی
پی بیٹھے خونِ جگر خاطرِ مولا اور کیا ریاضِ زندگی


رکھا تو نے عرصہ تک، اِس نعمت سے محروم کیوں؟
نفس ہم سے شاکی، جب یہ نقطہ ادبستان سے پکڑا
ہوگئے پاک سب جُسّے جل کے، بُت کے سوا
روٹھا بُت جو جلنے سے، اس کو قبرستان سے پکڑا
اب آنے لگی آواز ہر رگ سے اللہ ھو کی
یہ سکون ہم نے کچھ زمین سے کچھ آسمان سے پکڑا
کیا بتائوں تجھے کہ، دل کی زندگی ہے کیا؟
ڈال کر کمند ہم نے، اس کو کہکشاں سے پکڑا
بن بیٹھے آج ہم بھی طالبِ مولا لیکن
سُلجھے تھے، جب یہ راستہ اک انسان سے پکڑا
ہدایت ہے انسان کو انسان سے ہی اے کور چشم!
وسیلہ انسان نے انسان سے، شیطان نے شیطان سے پکڑا


سوچا تھا اک دن ہم نے، یہ وجہ تّنزل کیا ہے؟
رہتے ہیں سرگرداں ہر دم، یہ زندگی بے منزل کیا ہے؟
کونسی خامی ہے وہ، رہتے ہیں پریشان ہر دم؟
سدھر جائے جس سے دین و دنیا وہ عمل کیا ہے؟
جھانکا جو گریبان کو نظر آئیں ہزاروں خامیاں
روئے بہت آیا جو سمجھ میں مقصد اصل کیا ہے؟
نکلے پھر ڈھونڈنے رہنما کو اس اندھیر میں
بھٹکتے رہے برسوں، سمجھ نہ تھی پیر اکمل کیا ہے؟


کر بیٹھا عشق اک بے پرواہ سے انجان یہ
تڑپتا رہیگا بھٹی میں برسوں یہ خاقانہِ دِل
آجائے باز ضد سے، نہیں ہے ممکن اے ریاضؔ
دے چکا ہے تحریر سمیت گواہاں یہ جلالانہِ دل


جس حال پہ رکھے تو، اُسی پہ ہیں شاداں ہم
دِکھتا رہے فقط نام تیرا، ہوئے جس پہ قرباں ہم
رُل کہ اس مٹی میں ہوگا نہ زباں کو شکوہ تیرا
ہوگئے نام لیوائوں میں تیرے، اسی پہ نازاں ہم
نہ کر شبہ اے آسمان ان گیسوئوں پر ہمارے
تمنا نہیں کچھ، اُسی کے دیدار کو گریاں ہم
کھا نہ غم تُو، دیکھ کے خونِ جگر کو ہمارے
یہی پیالہ ہے، بیٹھے ہیں دینے کو جسے ترساں ہم
قسم ہے تجھے شہباز قلندر کی اے لال باغ
گواہ رہنا، بیٹھے ہیں عرصے سے بے گور و کفاں ہم
رس چکا ہوگا پتے پتے میں تیرے سوزِ عشق
رکھنا سنبھال کے امانت، بنائینگے کبھی گورِ لرزاں ہم
سمجھے گا کیا میری داد و فریاد کو یہ زمانہ
یہ تو ایک عجز تھا، کر بیٹھے جِسے افشاں ہم
آتا نہ تھا دِل کو چین کبھی نہ کبھی اے ریاضؔ
یہ بھی اِک مرض تھا، بنا بیٹھے قلم کو رازداں ہم


پہلے تو پکڑ اِس جاسوس کو کہتے ہیں جِسے نفس
آ نہ سکے گا گرفت میں، نہ کر فقیری میں عمر تباہ
ادھر تو چاہیے علم و حلم اور دِل کشادہ جانی
پھر صبر و رضا اور مرشد جو ہو راہوں سے آگاہ


نہ چھیڑ قِصّہ بادِ نکہت کا ویرانے میں، اے دیوانہِ دِل
ڈھونڈ نہ شہر خموشاں میں وہ شہنشائیاں، اے مستانہِ دِل
رکھ نہ تمنا کچھ اِن لاشوں سے ستاروں کے علاوہ
تھا بیشک خاکی تُو، ہو گیا اب جو عرشیانہِ دِل
نہ رکھ اُمید ہم سفر سے کچھ اے محبوبہ
تھا جو کبھی شیدائی تیرا، تھا وہ پرانا دِل
نہ رکھ تُو بھی آس کوئی اے میری جنت
پالا تھا آغوش میں، ہوگیا وہ بیگانہ دِل
بنا کے لحد میری رو لینا دو چار دِن
تھا جو سپوت تیرا مٹ گیا وہ فسانہِ دِل
کردینا بھرتی یتیم خانے میں بھی اُنکو
مر گیا باپ اُنکا ڈھونڈتے ڈھونڈتے خزانہِ دِل

دینِ حسین کے متعلق

ملا جس سے ایمان کچھ، گِرا وہ ثاقبِ شہاب تھا
لرزی مٹی جسکے خون سے وہ محافظ نورِ کتاب تھا
اَٹ گیا پھر دھول میں اُسکا مرغِ لاہوتی
کر نہ سکا پرواز پھر، تشنہ دنیا و مآب تھا
ہوگئے پھر پیوست اسکے بیضے خاک میں
ہوا پھر طائر بھی خاکستر، جو شعلہ آفتاب تھا
سمائی اُس میں وہ بُو، آئی پھر وہ خُو
بھولا سبق وہ لایا جو ٹکڑا نصاب تھا
ڈھونڈ کے آسان حیلہ، مذہب میں ترمیم کی
نکلے پھر حیلے کئی، ملا و مفتی بے حساب تھا


نہ تاثیرِ گفتار نہ طاقتِ رفتار نہ عُروجِ کردار تیرا
نہ خوفِ قبر، نہ یادِ خدا، تیری یہ مسلمانی کیا ہے؟
پڑھ کے کافر اک ہی بار لا الٰہ الا اللہ، ہوگیا خلدی
نہیں اثر دھڑا دھڑ لا اِلائوں سے، یہ ناتوانی کیا ہے؟
مال مست، حال مست، ذال مست بن نہ سکا لعل مست
بیٹھے ہو آڑ میں دین کی یہ سبقِ بے ایمانی کیا ہے؟
شب بیدار تُو پرہیزگار تُو نہ حقدار تُو
سمجھتا ہے خود کو مومن اور نادانی کیا ہے؟


رکھا تھا جس نے بھی صبر، اُس کا مقام انتہا ہوتا ہے
کہ نہیں ہے جنکا آسرا کوئی اُن کا خدا ہوتا ہے
ہوا گر برباد راہِ حق میں، وقت جوانی
وہی ہے با یزید، جو پتلاِ وفا ہوتا ہے
مارا گر ہوس و شہوت کو رہ کے دنیا میں
وہی طالع قسمت جو اک دِن باخدا ہوتا ہے
کی گریہ زاری گناہگار نے کسی وقت پشیمانی
کبھی نہ کبھی وہ کعبے میں سجدہ گرا ہوتا ہے


ہم عشق میں برباد، وہ برباد ہمارے جانے کے بعد
ہوئی عشق کو تسلی کتنی جانیں رُلانے کے بعد
آئے یاد بچے، آیا صبر پھر آنسو بہانے کے بعد
نہ رہی طاقتِ گفتار اب یہ دُکھڑا سنانے کے بعد


کہا اقبال نے دردِ دِل کے واسطے آیا آدمی
سمجھے تھے ہم شاید اقبال سے کچھ بھول ہوئی
گھومتے رہے ہم بھی کچھ عرصہ تک ان گردابوں میں
ہوا جب دِل کو درد پھر زندگی کچھ حصول ہوئی
یہ حیلہ نفس تھا، بُت میں بھی ہمارے
سمجھا نفس کو، دِل کو تازگی قبول ہوئی
آگئے تھے اوّل رُجعت میں پاکر یہ سبق
سمجھایا جو حق باہو نے، کچھ عقل دخول ہوئی
نہ خدمت سے نہ ہی سخاوت سے ہوا کوئی تغیر
ہوا جب ذکر قلب جاری کچھ روشنی حلول ہوئی

Copyright © 2025 Mehdi Foundation International