مریخ میں انسانی زندگی ابھی بھی موجود ہے جبکہ سورج میں بھی آتشی مخلوق آباد ہے
کہتے ہیں ایک خلاباز جب چاند میں اُترا۔ اُس نے اوپر کے سیاروں کی تحقیق کرنا چاہی تو اُسے اذان کی آواز بھی سنائی دی جس سے وہ متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا تھا۔ وہ مریخ کی دنیا تھی جہاں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ہمارے سائنسدان ابھی مریخ پر پہنچ نہیں پائے جبکہ وہ لوگ کئی بار اس دنیا میں آچکے ہیں۔اور بطور تجربہ یہاں کے انسانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کی سائنس اور ایجادیں ہم سے بہت آگے ہیں۔ہمارے سیارے یا سائنسدان اگر وہاں پہنچ بھی گئے تو اُن کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔
ایک آدم کو اللہ نے بہت علم دیا تھا اور اس کی اولاد علم کے ذریعے بیت المامور تک جا پہنچی تھی یعنی جو حکم اللہ فرشتوں کو دیتا، نیچے وہ سن لیتے تھے۔ایک دن فرشتوں نے کہا:’اے اللہ یہ قوم ہمارے معاملے میں مداخلت بن گئی ہے ۔ہم جب کوئی کام کرنے دنیا میں جاتے ہیں تو یہ پہلے ہی اس کا توڑ کرچکے ہوتے ہیں‘۔ اللہ نے جبرائیل سے کہا:’’ جاؤ ان کا امتحان لو!‘‘۔ایک بارہ سال کا بچہ بکریاں چرا رہا تھا۔جبرائیل نے اُس سے پوچھا:کیا تم بھی کوئی علم رکھتے ہو؟اُس نے کہا :پوچھو! ۔جبرائیل نے کہا: بتاؤ اس وقت جبرائیل کدھر ہے؟اُس نے آنکھیں بند کیں اور کہا :آسمانوں پر نہیں ہے۔پھر کدھر ہے؟ اُس نے کہا: زمینوں پر بھی نہیں ہے۔جبرائیل نے کہا: پھر کدھر ہے؟ اس نے آنکھیں کھول دیں اور کہا:میں نے چودہ طبقوں میں دیکھا، وہ کہیں بھی نہیں ہے، یا میں جبرائیل ہوں یا تو جبرائیل ہے۔پھر اللہ نے فرشتوں کو کہا: اس قوم کو سیلاب کے ذریعے غرق کیا جائے۔انہوں نے یہ فرمان سن لیا۔لوہے اور شیشے کے مکانات بنانا شروع کردیئے، پھر زلزلے کے ذریعے اُس قوم کو غرق کیا گیا۔اُس وقت اُس خطے کو ’’کالدہ‘‘ اور اب ’’یونان‘‘ بولتے ہیں۔انہوں نے روحانی علم کے ذریعے اور اب ہمارے سائنسدان، سائنسی علم کے ذریعے رب کے کاموں میں مداخلت کر رہے ہیں۔اِنہیں ڈرانے کیلئے چھوٹی موٹی تباہی اور مکمل تباہی کیلئے ایک سیارے کو زمین کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔جس کا گرِنا بیس پچیس20/25 سال تک متوقع ہے اور وہ دنیا کا آخری دِن ہوگا۔اُس کا ایک ٹکڑا گزشتہ دو برسوں میں مشتری پر گر چکا ہے۔سائنسدانوں کو بھی اُس کا علم ہوچکا ہے اور یہ اُس کے گرنے سے پہلے چاند پر یا کسی اور سیارے پر رہائش پزیر ہونا چاہتے ہیں۔جبکہ چاند پر پلاٹوں کی بکنگ بھی ہوچکی ہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاند میں انسانی زندگی کے آثار یعنی ہوا، پانی اور سبزہ نہیں ہے! پھر تگ و دو کا مقصد کیا ہے؟رہا سوال تحقیق کا! چاند، مشتری پر پہنچ کر بھی انسانیت کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا کوئی ایسی دوا یا نسخہ درازی ِعمر یا موت کی شفا کا ملا؟ اگر مریخ کی مخلوق تک پہنچ بھی گئے تو وہاں کی آکسیجن اور یہاں کی آکسیجن کی وجہ سے ایک دوسری جگہ رہنا محال ہے بس بیکار دولت ضائع کی جارہی ہے اگر وہی دولت روس اور امریکہ غریبوں پر خرچ کردے تو سب خوش حال ہوجائیں۔آدمیت کے فرق کی وجہ سے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کیلئے ایٹم بم بھی بنائے جارہے ہیں جبکہ بموں کے بغیر بھی دنیا کو تباہ ہی ہونا ہے۔